• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غیریقینی حالات کے مدوجزر میں پھنسی پاکستانی قوم کو عرصہ طویل کے بعدپاکستان کرکٹ ٹیم کی جانب سے رمضان کے مبارک مہینے میں آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کی جیت کی شکل میں وہ تحفہ ملا ہے کہ عید کی خوشیاں دوبالا ہوگئی ہیں۔ خوشی سے دمکتے چہروں کے ساتھ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد اور کوچ مکی آرتھر کی طرف سے دفاعی چیمپئن بھارت کے خلاف یادگار فتح کو پاکستانی قوم کے نام کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم ایک زندہ و جاوید قوم ہیں، بجا ہمیں مسائل کا سامنا ہے لیکن خداوندتعالیٰ کی رحمت کا پاکستان پر شمار ممکن نہیں۔ اگر تجزیوں تبصروں کی بات کی جائے تو پاکستان کی جیت کا کوئی چانس نظر نہیں آتا تھا،کرکٹ ماہرین کی رینکنگ میں پاکستانی ٹیم سب سے پست ترین آٹھویں نمبر پر تھی، جو گزشتہ ورلڈ کپ میں ایک ہی ٹاپ ٹیم کو شکست دے پائی تھی، ایک ماہ پہلے تک کا یہ حال تھا کہ پاکستان کی ورلڈ کپ میں شمولیت پر بھی انگلیاں اُٹھ رہی تھیں،گزشتہ برسوں میں پاکستان بولنگ، بیٹنگ اور فیلڈنگ سمیت کسی شعبے میں متاثرکن کارکردگی دکھانے میں ناکام رہا تھا،ٹیم کے مایہ ناز کھلاڑی میدانِ کرکٹ سے زیادہ ٹی وی اسکرین پر کمرشلز میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے نظر آتے تھے، سال میں متعدد مرتبہ کپتان بدلے جاتے تھے تو ہر نئے میچ میںایک نئی اوپنگ جوڑی سامنے آتی تھی،اگر ایک طرف کچھ کھلاڑیوں کو ڈراپ کرنے کے حوالے سے تنقید کا سامنا تھا تو دوسری طرف پی سی بی، کپتان کوچ جیسے تنازعات میڈیا کی زینت بنتے تھے۔ وہیں سری لنکن ٹیم پر لاہور میں حملے کے بعد سے تو جیسے انٹرنیشنل کرکٹ نے پاکستان سے ناطہ ہی توڑ لیا،بھارتی لابی کے زیراثر عالمی میڈیاایک طرف بلکہ پاکستانی میڈیا بھی پاکستانی ٹیم کے حوالے سے پُرامید نظرنہیں آتا تھا، ان حالات میںپاکستانی شائقین کرکٹ آئی سی سی چیمپئنزٹرافی کے آغاز میں ہی بھارت سے شکست اور دیگرپے درپے مایوس کن خبروں کے بعد جیسے کرکٹ سے لاتعلق ہوتے جارہے تھے لیکن قدر ت کو کچھ اور منظور تھا اور آج پوری پاکستانی قوم کپتان سرفراز کی زیرکپتانی پاکستان کرکٹ ٹیم کو سلام پیش کرتی ہے جس نے تمام تر دنیاوی تجزیوں کو خاک میں ملاتے ہوئے ثابت کردیا کہ خداوندتعالیٰ ہر اس شخص اور قوم پر مہربان ہوتا ہے جواپنے مقصد سے مخلص رہتے ہوئے خدا کی رحمت پر یقین کامل رکھے اور کامیابی کیلئے پُرعزم ہو۔ میں سمجھتاہوں کہ کرکٹ کھیل کا پاکستان میں جذبہ حب الوطنی کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ہے،کرکٹ میچ بالخصوص روایتی حریف بھارت سے مقابلے کے موقع پر پاکستانی قوم اپنے تمام لسانی و قومیتی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے متحد ہوجاتی ہے۔ مسجدوں، مندروں، کلیساؤں، گردواروں سمیت تمام مذہبی عبادتگاہوں میں پاکستانی ٹیم کی کامیابی کیلئے خصوصی دعائیں مانگی جاتی ہیں، چیمپئنز ٹرافی کے فائنل کے روز ٹوئیٹر پر پاکستان زندہ باد کا ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈ رہا جس کے تحت ملک بھر کے شہریوں اور بیرون ممالک مقیم تارکین وطن نے اپنی ہردلعزیز کرکٹ ٹیم کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کی فتحیابی بلاشبہ پاکستان کی ایک اہم ترین کامیابی ہے جسکے مثبت اثرات دیر تک مرتب ہوتے رہیں گے۔ اول تو پے درپے بحرانوں میں گھرے پاکستان کیلئے یہ جیت تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ثابت ہوئی ہے جس نے ہر پاکستانی کے دِل و دماغ کو خوشی سے سرشار کردیا ہے، سڑکوں پر نوجوانوں کا جشن، ٹی وی نیوز کاسٹرز کے چمکتے دمکتے چہرے اور سیاسی و عسکری قیادت کے فاتح ٹیم کیلئے انعامات کے اعلان نے قوم کا مورال ہائی کردیا ہے، پاک بھارت کشیدگی کے ماحول میں کرکٹ ٹیم کی فتح نے اس تاثر کی نفی کردی کہ پاکستان کسی بھی انٹرنیشنل ٹورنامنٹ میں بھارت سے جیتنے کے قابل نہیں رہا، وہیں بھارت کا غرور بھی خاک میں ملا دیاجس کے نفسیاتی اثرات دونوں اطراف محسوس کیے جاسکتے ہیں۔آج دنیا بھر کی نیوز ہیڈلائنز پاکستان کی تاریخی فتح کا اعلان کررہی ہیں، عالمی برادری پاکستان کو مستقبل کی ابھرتی ہوئی طاقت کے طور پر دیکھ رہی ہے جسکے باشندے ترقی کی دوڑ میں کسی دوسرے ملک سے پیچھے رہنے کو تیار نہیں، میں سمجھتا ہوں کہ یادگاری فتح سے عالمی سطح پرملک و قوم کا جونام روشن ہوا ہے اس سے سفارتی میدان میں استفادہ حاصل کرنا چاہئے،کھیل کو تنازع نہیں بلکہ معمول کے دوطرفہ تعلقات قائم رکھنے کا باعث ہونا چاہئے، امید کی جانی چاہئے کہ پاکستان کے ویران کرکٹ اسٹیڈیم دوبارہ آباد ہوجائیں گے اور پاکستان کو پھر سے عالمی ٹیموں کیلئے شرفِ میزبانی کا اعزاز حاصل ہوجائے گا۔دنیا بھر میں کرکٹ کو جنٹل مین (شرفاء) کا کھیل بھی کہا جاتا ہے جسکے اغراض و مقاصد میں کھلاڑیوں اور شایقین کو اعلیٰ اخلاقی اقدار کو پروان چڑھانے کی تلقین کرنا ہے،انگریزی زبان کی مشہور کہاوت ہے کہ اِٹ اِز ناٹ کرکٹ (یہ کرکٹ نہیں ہے)جسکا استعمال کسی قسم کی بے ایمانی، بے ضابطگی اوربدعنوانی سے پاک سمجھے جانے والے کرکٹ کھیل کا حوالہ دیتے ہوئے عام زندگی میں خلافِ ضابطہ امر کی نشاندہی کرتے ہوئے کیا جاتاہے،کرکٹ کے کھیل میں تمام کھلاڑیوں سے ایمانداری سے اپنی صلاحیتیں اجاگر کرنے کی توقع کی جاتی ہے، اگرامپائر نے آؤٹ قرار دے دیا تو بیٹس مین خاموشی سے میدان چھوڑ دیتا ہے اوراگلا کھلاڑی جیت کی امید دِل میں جگائے اسکور بڑھانے باوقار انداز میں میدان سنبھال لیتاہے جبکہ اسی طرح چوکے، چھکے، وائیڈ بال وغیرہ کا فیصلہ امپائر کے اشارے سے وابستہ ہوتا ہے اور شائقین اپنی ٹیم کا حوصلہ بڑھاتے وقت امپائر کے فیصلے کے خلاف کسی قسم کی مظاہرہ بازی اورہلڑ بازی نہیں کیا کرتے۔ اسپورٹس مین شپ کے انہی اصولوں پر اپنے وقت کی سپرپاور برطانیہ نے کرکٹ کے عظیم کھیل کی بنیادیں استوار کرتے ہوئے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلی عظیم الشان برطانوی سلطنت میں بسنے والوں کے مابین برداشت، رواداری، اصول پرستی اور اخلاقی اقدار کے فروغ کیلئے کرکٹ کا کھیل متعارف کروایا، کرکٹ کی تاریخ کا پہلا انٹرنیشنل میچ برطانیہ اور نوآبادیاتی ملک امریکہ کے مابین لگ بھگ دوسو برس قبل ہوا تھا، آج تقریباََ تمام ہی دولت مشترکہ کے ممالک کرکٹ میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن انگریزکی غلامی سے آزاد ہونیوالے برصغیر کے دو ممالک بھارت اور پاکستان اپنی روایتی مقابلے بازی کی بنا پرکرکٹ کی تاریخ میں نمایاں مقام کے حامل ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یوں تو دورِ جدید میں کمرشل ازم اور گلیمرائزیشن نے ہر شعبہ زندگی کو متاثر کیا ہے لیکن اعلیٰ روایات پر مبنی کرکٹ کے کھیل کو بھی نہیں بخشاہے۔سٹے بازی، میچ فکسنگ، جوئے کے الزامات سے قطع نظر دو ممالک کی ٹیموں کے مابین کرکٹ میچ کے موقع پر جنگی ماحول پیداکردینا ہیجان انگیزی ہے جو کسی بھی مہذب معاشر ے کیلئے سودمند نہیں،سستی شہرت کے حصول کیلئے ماضی کے فنکاروں کا مخالف ٹیم کیلئے اوچھی زبان کا استعمال بھی قابلِ مذمت ہے،بلاشبہ ہار جیت کھیل کا حصہ ہوا کرتی ہے لیکن اسکا مطلب یہ قطعی نہیں سمجھنا چاہئے کہ مدمقابل ممالک کے عوام ایک دوسرے کے خلاف نازیبا بیان بازی کریں، جیت کی صورت میں سڑکوں پر ٹریفک جام کرکے طوفانِ بدتمیزی برپا کردیں اور اگر شکست کا سامنا کرنا پڑے تو ٹی وی سیٹ توڑ کر اپنے ہی ہم وطن کھلاڑیوں کیخلاف مظاہروں پر اُتر آئیں، ہار اور جیت دونوں صورتوں میں عوام کو بھی اسپورٹس مین شپ کا مظاہرہ پیش کرنا چاہئے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی فتح ان تمام لوگوں کیلئے سبق آموز ہے جو اپنی زندگی کی جدوجہد میںحصول کامیابی کیلئے دنیا کی تنقید سے بے پروا ہوکر محنت، ایمانداری اور رحمتِ خداوندی پر یقین رکھتے ہیں، ہم سب کو حالیہ عظیم الشان فتح کو خداکا مقدس مہینے میں عظیم تحفہ سمجھتے ہوئے اپنی روزمرہ زندگی کرکٹ کے برداشت، رواداری پر مبنی سنہری اصولوں پر استوار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

 

 

تازہ ترین