• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ اپریل کے دوران میں نے اپنے ایک کالم کے ذریعے محترم چیف جسٹس سے ایک ٹی وی چینل پر چلنے والے انتہائی فحش گانے پر سوموٹولینے کی درخواست کی۔ چیف جسٹس صاحب نے سو موٹولیتے ہوئے پیمرا کو حکم دیا کہ قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اور اس سلسلے میں سپریم کورٹ کو آگاہ رکھا جائے۔ پیمرا نے کارروائی کرتے ہوئے متعلقہ ٹی وی چینل کو نوٹس جاری کیا، اُس کو سنا اور پھر سات دن کے لیے ٹی وی چینلز کی نشریات کو معطل کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ اگرچہ میری رائے میں جس نوعیت کی خلاف ورزی کی گئی اُس کے تناظر میں یہ سزا بہت کم تھی لیکن بحرحال پیمرا نے سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد فیصلہ دیا۔ لیکن اس سے پیشتر کہ اس فیصلے پر عمل درآمد ہوتا، متعلقہ ٹی وی چینل کی انتظامیہ سندھ ہائی کورٹ پہنچ گئی اور پیمرا کے حکم کے خلاف اسٹے آرڈر لے آئے اور اس طرح چیف جسٹس آف پاکستان کے سوموٹو اور پیمرا کے فیصلے کے باوجود انتہائی بیہودگی چلانے کے باوجود چینل کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوسکی۔ یہ کیسا عدالتی نظام ہے جس میں عدالتی اسٹے آرڈرز کو کس طرح قانون کی خلاف ورزی کرنے والے اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں اور یوں نہ سزا کی کوئی حیثیت رہتی ہے، نہ قانون کی اور نہ ہی قانون کی عملداری کی۔ اور یہی وجہ ہے کہ ٹی وی چینلز میں فحاشی و عریانیت ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ ان حالات میں قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے حوصلہ بڑھتے ہیں۔ ایک اسلامی معاشرے میں فحاشی پھیلانے والوں اور قانون کی کھلے عام خلاف ورزی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کے نتیجے میں حال ہی میں رمضان المبارک کے مہنیہ کے دوران ایک ٹی وی چینل نے بے ہودگی کی حدیں پار کر دیں۔ پیمرا کے ایک ذرائع نے مجھے اس بارے میں بتایا اور متعلقہ وڈیو بھی بھیجی۔ میں نے پیمرا چیئرمین کے ساتھ ساتھ اس فحش مواد کو سپریم کورٹ کے ایک افسر کو بھی بھیجا تاکہ چیف جسٹس صاحب کی توجہ میں یہ معاملہ اٹھایا جائے۔ اگرچہ پیمرا اس خلاف ورزی پر بھی متعلقہ ٹی وی چینل کے خلاف نوٹس جاری کر دیا لیکن مسئلہ وہی ہے کہ اگر اس چینل کو بھی سزا سنا دی جائے تو پھر فیصلہ پر عمل درآمد کیسے ہو گا۔ پھر کوئی اسٹے آرڈر آ جائے گا اور یوں ہماری نسلوں کو تباہ و برباد کرنے والوں کا کھیل جاری و ساری رہے گا۔ سپریم کورٹ کے ایک افسر سے بات کرتے ہوئے میں نے ان سے درخواست کی کہ مہربانی کر کے چیف جسٹس کو بتایا جائے کہ اُن کے پہلے سو موٹو ایکشن کے ساتھ کیا ہوا۔ ماضی میں مسئلہ یہ تھا کہ پیمرا فحاشی و عریانیت پھیلانے والے چینلز کے خلاف کارروائی کرنے سے ہی کتراتا تھا۔ اب کچھ عرصہ سے پیمرا نے اس معاملے کی سنگینی اور اس کے آئندہ نسلوں پر پڑنے والے اثرات کی وجہ سے کارروائی شروع کی لیکن اسٹے آرڈرز کی وجہ سے قانون کی عمل داری نہیں ہو پارہی۔ چیئرمین پیمرا نے حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے اسٹے آرڈرز کی وجہ سے قانون کے نفاذ میں رکاوٹوں کا ذکر کیا اور بتایا کہ اس وقت ساڑھے پانچ سو سے زیادہ پیمرا کے کیس عدالتوں میں التوا کا شکار ہیں جن نے ایک بڑی تعداد اسٹے آرڈرز کی ہے۔ ان حالات میں پیمرا کا ادارہ کیسے قانون کا نفاذ کر سکتا ہے۔ رمضان المبارک سے قبل پیمرا نے رمضان ٹرانسمیشن کے سلسلے میں ٹی وی چینلز کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر گائیڈ لائنز جاری کیں تاکہ اس مبارک مہنیہ کی حرمت کا خیال رکھا جائے۔ ٹی وی چینلز پہلے ان گائیڈ لائنز کے خلاف سپریم کورٹ گئے وہاں کوئی خاص شنوائی نہ ہوئی تو اسلام آباد ہائی کورٹ سے ہی اسلام آبادہائی کورٹ کے پہلے فیصلہ کے حکم کی روشنی میں جاری گائیڈ لائنز کے خلاف اسٹے آرڈر لے لیا اور یوں معاملہ پھر وہیںکا وہیں اٹکا رہا اور رمضان بھی گزر گیا۔ پیمرا بے بسی سے دیکھ رہا ہے کہ کس سے قانون کی خلاف ورزی کرنے والے اُس کا منہ چڑا رہے ہیں۔ اب تو مجھے یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ وزیر اعظم ہائوس کی طرف سے پیمرا کو کہا گیا ہے کہ غیر قانونی انڈین چینل کو بھی چلنے دیں۔ ان حالات میں بہتر ہو گا کہ پیمرا کے محکمہ کو ہی بند کر دیں۔ جب کیبل اور چینلز کو کنٹرول نہیں کرنا تو پھر پیمرا کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے۔

 

.

تازہ ترین