• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یاد نہیں کہ سرفروش سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی تھی لیکن یہ یاد ہے کہ میں نے اس دلیر اور بہادر سیاستدان کو سرفروش کا خطاب اس کی مسلم لیگ(ن) میں شمولیت سے بہت پہلے دیا تھا۔ پرویز مشرف کے دور میں جن سیاستدانوں کو سرکردہ سرکشوں کی فہرست میں شامل کرکے باری باری جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ا ن میں یہ سرفروش بھی شامل تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے پرویز مشرف نے اپنے’’آپریشن راہ راست‘‘ کے ذریعہ نواز شریف کے کئی سرفروشوں کو ضمیر فروشوں میں شامل کردیا لیکن میرے سرفروش دوست نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور اپنی سرکشی میں سرشار رہا۔ عید کی چھٹیوںمیں سرفروش سے ملاقات ہوئی تو اس نے خلاف توقع رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کے حق میں میری زبان سے نکلنے والے کچھ الفاظ پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ کو قانون توڑنے والوں کے ساتھ کھڑا نہیں ہونا چاہئے۔مجھے سرفروش کی بات اچھی نہیں لگی لیکن میں نے اس کا یہ شکوہ ایک وزیرانہ مجبوری سمجھ کر نظر انداز کردیا اور کہا کہ جب آپ کو مارا پیٹا گیا اور جیل میں ڈالا گیا تو میں نے آپ کے لئے آواز اٹھائی تھی آج وہی کچھ جمشید دستی کے ساتھ ہورہا ہے تو مجھے آپ یاد آگئے لہٰذا میں نے آپ کی یاد میں جمشید دستی کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔ یہ سن کر سرفروش نے سرگوشی کرتے ہوئے کہا کہ جمشید دستی ایک فراڈیا ہے ہم نے اس پر کوئی تشدد کیا ہے نہ اس پر بچھو چھوڑے ہیں، میڈیکل رپورٹ میں تشددکا کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔ میں نے جواب میں کہا کہ سرکار بھی آپ کی، ڈاکٹر بھی آپ کے، رپورٹ بھی آپ کی، اگر آپ کو پاناما کیس کی جے آئی ٹی کو جھوٹا کہنے کا حق ہے تو جمشید دستی کو حکومت پنجاب کی میڈیکل رپورٹ کو جھوٹا قرار دینے کا حق تو دیں۔ میری دلیل میں چھپے طنز نے سرفروش کے چہرے پر شرارت آمیز مسکراہٹ بکھیر دی اور اس نے پنجاب کے ایک اعلیٰ پولیس افسر کا نام لیا اور بتایا کہ اس پولیس افسر نے جیل میں جمشید دستی سے ملاقات کی اور پوچھا کہ کیا واقعی آپ پر تشدد ہوا؟ کیا واقعی آپ پر بچھو چھوڑے گئے تو دستی ہنسنے لگا اور کہنے لگا کہ میرے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا لیکن سیاست میں کبھی کبھی بہت کچھ کرنا پڑتا ہے میں نے بھی اپنے بچائومیں جو بن پڑا وہ کیا۔ دستی کو نہیں پتا تھا کہ وہ جو کچھ کہہ رہا تھا وہ سب ریکارڈ ہورہا تھا۔ اب اس کے جھوٹ کا اعتراف اس کی اپنی زبانی ہمارے ہاتھ آچکا ہے۔ میں خاموش ہوچکا تھا لیکن سرفروش نے میری آنکھوں میں تڑپتا ہوا سوال پڑھ لیا اور کہا کہ دنیا بھر میں قیدیوں کی گفتگو ریکارڈ بھی ہوتی ہے اور خفیہ کیمروں سے ان کی فلمیں بھی بنتی ہیں۔ میں خاموش رہا۔ اب میری خاموشی نے سرفروش کو بے چین کردیا۔ اس نے اپنی بے چینی کو مصنوعی مسکراہٹ کے پیچھے چھپاتے ہوئے پوچھا کہ آپ خاموش کیوں ہوگئے؟ میں نے بڑے مدہم لیکن مطمئن انداز میں کہا کہ آپ سے یہ امید نہ تھی لیکن اچھا ہوا کہ میری کچھ غلط فہمیاں دور ہوگئیں نجانے آج کل آپ کس کس کا فون ریکارڈ کررہے ہیں۔ یہ سن کر سرفروش کھسیانا سا ہوگیا۔
جمشید دستی کے جھوٹے اور سچے ہونے کا فیصلہ حکمران جماعت نے کرنا ہے نہ میں نے کرنا ہے نہ قانون نے کرنا ہے۔ قانون طاقتور کا غلام ہے، مسلم لیگ(ن)کی قیادت جمشید دستی کے ساتھ وہی کچھ کررہی ہے جو مسلم لیگ(ن) کے کئی سرفروشوں کے الفاظ میں پاناما کیس کی جے آئی ٹی شریف خاندان کے ساتھ کررہی ہے۔ سلام ہے آپ کی بہادری اور اصول پسندی کو۔ جے آئی ٹی کی مبینہ ز یادتیوں کا بدلہ جمشید دستی سے لے کر اپنی مجروح انا کی تسکین و تسلی کا سامان پیدا کرلیا گیا ہے۔ لگتا ہے آنے والے دنوں میں میڈیا کے سامنے گڑگڑانے اور آنسو بہانے والے جمشید دستی کو مزید رسوا کیا جائے گا۔ عدالت سے ضمانت ہوگئی تو بھی اس کی ریکارڈنگ سامنے لا کر اس کی قومی اسمبلی میں کی گئی بدتمیزیوں کا بدلہ لیا جائے گا۔ مسلم لیگ(ن) نے جمشید دستی کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا ہے اسے دیکھ کر مجھے پرویز مشرف کا وہ مشہور مکا یاد آتا ہے جو موصوف اپنی سیاسی بدنامی کے عروج کے دنوں میں بھی بڑے اعتماد کے ساتھ لہرایا کرتے تھے لیکن جب2008کے انتخابات میں تمام تر کوشش کے باوجود مشرف کے حامی اکثریت حاصل نہ کرسکے تو موصوف کو اپنا مکا جیب میں ڈال کر پاکستان چھوڑنا پڑا۔
مشرف اور نواز شریف میں بہت فرق تھا لیکن مسلم لیگ(ن) نے اپنے انداز حکمرانی سے یہ فرق مٹانے کی بہت کوشش کی ہے۔ مشرف دور میں بھی پارلیمنٹ کی حیثیت نمائشی تھی آج بھی پارلیمنٹ کی حیثیت نمائشی ہے۔ اہم فیصلے منتخب ایوان نہیں بلکہ کچھ افراد کرتے ہیں منتخب ارکان کو جیلوں میں ڈالا جاتا ہے جو ادارہ کسی فرد یا جماعت کی سیاسی مصلحتوں کے سامنے سرنگوں نہ ہو اس پر سرفروش وزیروں کا ایک گروہ چڑھ دوڑتا ہے۔ آج کل تمام بڑی سیاسی جماعتوں میں سرفروشوں اور ضمیر فروشوں کی خاصی تعداد موجود ہے۔ حال ہی میں کچھ ضمیر فروشوں نے پارٹی بدل کر سرفروشوں میں شامل ہونے کی کوشش کی لیکن یہ بیچارے ایمان فروشوں کی ایک نئی داستان کا حصہ بن گئے۔ اس سنسنی خیز داستان کا ایک کردار احمد شجاع پاشا بھی ہیں جنہیں امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس نے اپنا’’نجات دہندہ‘‘ قرار دے دیا ہے۔
کسی زمانے میں پاشا صاحب بھی ایمان فروشوں کے تعاقب میں رہا کرتے تھے اور وطن فروشی کے جھوٹے سچے الزامات لگایا کرتے تھے۔ اب یہ سب الزامات ان پر لگائے جارہے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کی کتاب کا ٹارگٹ پاشا نہیں بلکہ وہ ادارہ نظر آتا ہے جسے پاشا نے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ پاشا کا انجام اس ادارے کے ارباب اختیار کے لئے ایک تاریخی سبق ہے۔ پاکستان کی سیکورٹی کے ذمہ دار اداروں کو سیاست میں ملوث کرنے کا انجام نہ افراد کے لئے اچھا ہوتا ہے نہ اداروں کے لئے اچھا ہوتا ہے۔ پاکستان کی بقاء و سلامتی کا اصل ضامن وہ آئین ہے جس پر پوری قوم نے1973ء میں اتفاق کیا تھا۔ اس آئین کی خلاف ورزی کا اختیار نہ پارلیمنٹ کو ہے نہ فوج کو نہ عدالتوں کو ہے۔ میڈیا کی آزادی بھی اس آئین کی پابند ہے بدقسمتی سے امریکہ بہادر کی خوشنودی کے لئے پارلیمنٹ، فوج اور عدلیہ نے مل کر شریعت کے نام پر ریمنڈ ڈیوس کو رہائی دلوائی۔ اس جرم میں سب برابر شریک تھے۔ عمران خان نے کہا ہے کہ ہر پاکستانی کو ریمنڈ ڈیوس کی کتاب ضرور پڑھنی چاہئے تاکہ پتا چلے کہ دنیا میں ہماری عزت کیوں نہیں۔ پاکستانیوں سے گزارش ہے کہ امریکی جاسوس کی کتاب پڑھ کر عمران خان کے نئے ساتھیوں پر ایک نظر بھی ڈال لیں۔ ان میں سے اکثر وہ تھے جو ہمارے سامنے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے حق میں دلیلیں دیا کرتے تھے اور اس مسئلے پر حکومت سے اختلاف کرنے والے شاہ محمود قریشی کو پاشا کا سرفروش قرار دیا کرتے تھے۔ زرداری کے یہ سابقہ سرفروش عمران خان کو بہت مبارک ہوں۔

تازہ ترین