• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا ہمیں اس بات پر حیران ہونا چاہئے کہ ادھر امریکہ میں ریمنڈ ڈیوس کی کتاب چھپی اور ادھر وہ ہمارے پاس پہنچ گئی؟ کتاب کے چند صفحے نہیں بلکہ پوری کتاب ہمارے کمپیوٹر پر آ گئی۔ کس نے بھیجی؟ ہمیں نہیں معلوم۔ لیکن وہ کتاب صرف ہمیں ہی نہیں ملی ہے بلکہ ہمارے جتنے بھی جاننے والے ہیں یہ کتاب ان کے کمپیوٹر پر پہنچ گئی ہے۔ قاعدہ تو یہ ہے کہ جب کوئی کتاب چھپتی ہے تو اس وقت تک اسے کمپیوٹر پر نہیں چڑھایا جاتا جب تک وہ بازار میں اچھی طرح فروخت نہیں ہو جاتی۔ اور اگر ریمنڈ ڈیوس جیسے بدنام شخص کی کتاب ہو تو اسے بالکل ہی مفت پڑھنے کو نہیں دیا جاتا۔ پہلے اس پر دنیا بھر کے اخباروں میں تبصرے کرائے جاتے ہیں اس کے بعد اس کی اشاعت کی تاریخ کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس طرح پڑھنے والوں کے اندر تجسس پیدا کیا جاتا ہے تاکہ جیسے ہی وہ کتاب بازار میں آئے پڑھنے والے دکانوں کی طرف بھاگیں۔ لیکن یہاں الٹا ہوا۔ پہلے کوئی خبر ہی نہیں آئی کہ ریمنڈ ڈیوس کوئی کتاب بھی لکھ رہا ہے۔ کم سے کم ہمیں تو اس کی اطلاع نہیں ملی۔ بس اچانک ہی اطلاع ملی کہ اس کی کتاب چھپ گئی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ کتاب مفت ہمارے پاس پہنچ گئی۔ اب سچی بات تو یہ ہے کہ ہم نے وہ کتاب نہیں پڑھی۔ ایک تو اس وجہ سے کہ مونیٹر کے سامنے بیٹھ کر کون اتنی بڑی کتاب پڑھے۔ دوسرے اس وجہ سے بھی کہ کتاب چھپتے ہی اخباروں نے اس کے اہم حصوں سے خبریں بنا کر چھاپنا شروع کر دی تھیں اس لئے خواہ مخواہ ہم اپنا وقت ضائع کرتے۔ ایک ایسی کتاب پر جس کی بہت سی معلومات ہمیں اخباروں سے مل رہی تھیں، دوسرے ہمارے دوستوں کے بقول اس میں کوئی نئی بات بھی نہیں ہے؟ وہی باتیں ہیں جو بار بار دہرائی جا چکی ہیں۔ لیکن سوال وہی ہے کہ آخر اسے اتنے وسیع پیمانے پر مفت تقسیم کیوں کیا جا رہا ہے؟ کیا اس طرح کس کی قلعی کھولنا مقصود ہے؟ جن لوگوں کا ذکر اس کتاب میں کیا گیا ہے ان کے بارے میں بھی ہم پہلے سے ہی بہت کچھ جانتے ہیں۔ یہ وہی ہیں نا جو میمو گیٹ میں حسین حقانی کے خلاف گواہی حاصل کرنے برطانیہ پہنچ گئے تھے؟ مگر ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں وہ اکیلے نہیں تھے۔ اس میں اس وقت کی حکومت بھی شامل تھی۔ اور وہ مجبوری کو شامل ہوئی تھی۔ اس بارے میں ایک صاحب نے بڑا چبھتا ہوا سوال کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ریمنڈ ڈیوس کو نہ چھوڑا جاتا تو کیا امریکہ سے مقابلہ کیا جاتا؟ اسامہ بن لادن کو امریکی ہیلی کاپٹر کھلم کھلا مار کر لے اڑے۔ ہم نے اس وقت امریکہ کا کیا کر لیا؟ اسامہ اتنے عرصے ایبٹ آباد میں رہا اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہا۔ کیا واقعی ہمیں اس کے متعلق کوئی خبر نہیں تھی؟ ریمنڈ ڈیوس بھی خدا جانے کب سے ہمارے ملک میں کام کر رہا تھا۔ اس کی موجودگی کی خبر تو ہمیں اس لئے ہو گئی کہ اس نے اپنا پیچھا کرنے والے دو نوجوانوں کو مار دیا تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کسی کو کانوں کان بھی خبر نہ ہو تی۔ ریمنڈ ڈیوس کو بھی ہمارے قصاص و دیت قانون سے فائدہ پہنچایا گیا، یہ اس کی قسمت تھی۔ اب آپ اگر اس کی کتاب پڑھنا چاہیں تو آپ کی مرضی۔ ورنہ اخبار اس کتاب کا ست نکال کر آپ تک پہنچا چکے ہیں۔
لیکن ہمارے لئے ایک ہی تو حیرت کی بات نہیں ہے۔ ہمیں تو حیرت اس بات پر بھی ہے کہ پاکستان کی سڑکوں پر ہر روز ایسے حادثے ہوتے ہیں جن میں کئی انسانی جانیں چلی جاتی ہیں۔ یہ واقعے یا حادثے ہر روز ہو تے ہیں اور بلا ناغہ ہو تے ہیں۔ احمد پور شرقیہ کا واقعہ تو اتنا ہولناک تھا کہ اب تک اس آگ میں بھسم ہونے والوں کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ نشتر ہسپتال میں روزانہ ایک دو موتیں ہو رہی ہیں۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق اب تک مرنے والوں کی تعداد دوسو تک پہنچ چکی ہے۔ لیکن اس واقعے کے بعد بھی یہ حادثے بند نہیں ہوئے ہیں۔ اس کے بعد بھی ایسے حادثوں کی خبریں آ رہی ہیں۔ اس کے بعد بھی ٹینکر الٹ رہے ہیں، ہماری حکومت کے پاس اس کا علاج ایک ہی ہے کہ حادثے میں مرنے والوں کے لوا حقین کو اور زخمیوں کو بھاری رقم دے کر ان کا منہ بند کر دیا جائے۔ گویا اس طرح ماتم گساروں کے آنسو پونچھ کر ہم انہیں خرید لیتے ہیں۔ ظاہر ہے، ان حادثوں کا نشانہ بننے والے عام طور پر غریب خاندانوں سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور وہ غریب یہ رقم وصول کر لیتے ہیں۔ اب تک ایسی کوئی مثال ہمارے سامنے نہیں آئی تھی کہ کسی نے یہ معاوضہ لینے سے انکار کیا ہو۔ لیکن پارا چنار کے باشندوں نے یہ مثال بھی قائم کر دی۔ انہوں نے حکومت کی مالی امداد لینے سے صاف انکار کر دیا کہ آپ ہمارا غم نہیں خرید سکتے۔ اب چونکہ ہمارے ہاں ہر روز ہی ایسے حادثے ہوتے رہتے ہیں اس لئے ہمیں قریب قریب ہر روز ہی یہ اعلان سننے کو ملتے ہیں کہ فلاں حادثے سے متاثر ہونے والوں کے لئے حکومت نے فی کس اتنی اتنی رقم دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ کام عام طور پر پنجاب کی حکومت کی طرف سے ہی کیا جاتا ہے۔ ہم تو یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا کسی اخبار کا دردمند دل رکھنے والا رپورٹر یہ تفتیش کر سکتا ہے کہ پچھلے ایک سال میں حکومت کی طرف سے اس مد میں کتنے روپے خرچ کئے گئے ہیں؟ ظاہر ہے یہ رقم سرکاری خزانے سے ہی دی جاتی ہے۔ اور سرکاری خزانے میں یہ روپیہ ہماری جیب سے جاتا ہے۔ اس لئے ہمارا حق ہے کہ ہمیں اس کا حساب دیا جائے۔ اب یہی دیکھئے کہ مری کے قریب ڈولی کیبل کار کے حادثے میں متاثر ہونے والوں کو بھی حکومت ہی معاوضہ دے رہی ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ اس ڈولی کے مالکوں کو یہ معاوضہ دینے پر مجبور کیا جائے۔ لیکن ہماری حکومت کی فراخ دلی اسی وقت ظاہر ہوتی ہے جب کوئی خوں ریز حادثہ ہو جاتا ہے۔ ابھی تک ہم نے ایسی کوئی خبر نہیں پڑھی کہ تیل لے جانے والے ٹینکروں کو اس وقت تک سڑک پر آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی جب تک اس کی فٹنس کی ضمانت نہیں مل جاتی۔ اسی طرح ڈرائیور کی مہارت کی ضمانت بھی لی جائے گی۔ بلکہ ٹینکروں کے مالکوں کی بھی واقعی خبر لی جائے گی۔ لیکن ہمیں تو سرکاری خزانہ لٹانے کی خبریں ہی ملتی رہتی ہیں۔ اب یہ تو آئل ٹینکروں کی بات ہوئی۔لیکن سڑکوں پر ہر روز بسیں، ویگنیں اور کاریں الٹنے اور ٹکرانے کی جو خبریں آتی رہتی ہیں وہ تو جیسے ہمارے روزمرہ کا معمول بن چکی ہیں۔
اب یہاں آ کر ہم پھر اپنے پرانے موقف کی طرف لوٹتے ہیں۔ اب ہمارے لئے کسی واقعے، کسی حادثے یا کسی ایسی ویسی خبر میں حیرت کی کوئی بات ہی نہیں رہی۔ وہ ریمنڈ ڈیوس کی کتاب ہو یا سڑکوں کے حادثے، ہم چکنے گھڑے بن چکے ہیں۔ بوند پڑتی ہے اور پھسل جاتی ہے۔ شاید بزرگ ہمارے لئے ہی کہہ گئے ہیں
چکنے گھڑے پہ بوند پڑی اور پھسل گئی

تازہ ترین