• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محترمہ عاصمہ جہانگیر وطنِ عزیز کی ممتاز قانون دان ہی نہیں بلکہ ہیومین رائٹس کے لیے ان کی طویل جدوجہد بھی ناقابلِ فراموش ہے۔ ان کے نظریات سے اختلاف کرنے والوں کی یہاں کمی نہ ہو گی مگر انہوں نے پاکستان جیسی روایتی سوسائٹی میں شعوری بیداری، حقوق سے آگہی اور سوسائٹی کے پسے ہوئے طبقات بالخصوص خواتین کے لیے جس طرح آواز اٹھائی ہے وہ ان خطوط پر کام کرنے والی تنظیموں کے لیے ایک روشن مثال ہے وہ جرأت، حوصلے اور دانشمندی کا امتزاج ہیں۔ اپنی بات دلیل کے ساتھ ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہوئے اُن کی زبان لڑ کھڑاتی ہے نہ قدم۔۔۔وطنِ عزیز میں جمہوریت کا گلا دباتے ہوئے جب بھی آئین اور قانون کا کھلواڑ کیا گیا ہے انہوں نے اس کے خلاف ضمیر کی آواز بلند کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں کی ہے۔
آج ہر سو JIT کا شور ہے انہوں نے موقع کی مناسبت سے یہ اظہارِ خیال ضروری سمجھا ہے کہ JIT پر تنقید سپریم کورٹ پر تنقید نہیں ہے اُن کا یہ بھی موقف ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا تنقیدی جائزہ لینا توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتاہے۔ محترمہ عاصمہ کے اس نقطہ نظر کی تائید میں پوری دنیا کے عدالتی فیصلوں پر ہونے والے تنقیدی جائزے پیش کیے جا سکتے ہیں بالخصوص وطنِ عزیز کی تاریخ میں تو ایسے متنازع فیصلوں کی بھرمار ہے۔ یہاں آئین اور منتخب پارلیمنٹ کو روندتے ہوئے جب بھی طالع آزمائی کی گئی ہماری جوڈیشری نے ماضی میں بالعموم اسے تحفظ فراہم کیا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر جمہوریت کا تیاپانچہ کرنے والوں کو یہ حق بھی بخشا جاتا رہا کہ وہ آئین میں یکطرفہ ترامیم کر سکتے ہیں حالانکہ یہ حق ان فیاضی کرنے والوں کے اپنے دائرہ اختیار میں بھی نہیں تھا۔ یہ صر ف پاکستانی عوام کی امنگوں کے ترجمان منتخب ادارے کا حق تھا جو شیرینی کی طرح بانٹا جاتا رہا۔ سپریم کورٹ کے ججز کی جانب سے گاڈ فادر کے الفاظ استعمال کرنے پر سابق صدر سپریم کورٹ بار کا کہنا ہے کہ انہیں یہ الفاظ سن کر بہت دکھ ہوا ہے۔ہو سکتاہے کہ گاڈ فادر اور سیسلین مافیا کے الفاظ طنزیہ طور پر ادا کیے گئے ہوں۔ موجودہ منتخب حکومت اگر گاڈ فادر ہوتی تو اس کے خلاف JITنہ بنتی۔ ہم نے مافیا دیکھے ہیں کوٹ لکھپت کی جیلیں بھی دیکھی ہیں۔
عاصمہ صاحبہ کے علاوہ بھی وطن عزیز میں ایسے اہل دانش کی کمی نہیں ہے جنہوں نے یہاں جبری ہتھکنڈوں کا بے دریغ استعمال ہوتے دیکھا ہے۔ طالع آزمائوں نے قائد کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے متعلق بد تہذیبی کرتے ہوئے شرم محسوس نہ کی۔ انہوں نے حسین شہید سہروروی جیسے عظیم جمہوری قائد کے متعلق کہا کہ میں قبر میں پہنچنے تک اس کا پیچھا کروں گا۔ گاڈ فادر تو وہ ہوتے ہیں جن کی آئین شکنی کے سامنے آئین کی دفعہ 6 بیکار محسوس ہوتی ہے۔ جو ڈھٹائی سے راستہ بدل کر اسپتال کے ایک حصے کو اپنا ریسٹ ہاؤس بنا لیتے ہیں اور پھر سب کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے بیرونِ ملک پہنچ جاتے ہیں۔ اور قانون ان کا بال بیکا نہیں کر سکا۔ لیکن شاید ایسے لوگوں کا تعلق ایسی غیر عوامی کلاس سے ہے جہاں سب کے پَر جلتے ہیں۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر نے پاناما کیس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانونی سے زیادہ سیاسی ہے مسئلہ کرپشن کا نہیں ہے ایشوز کچھ اور ہیں۔ طاقتوروں کو مضبوط نہیں کمزور جمہوریت چاہئے۔ نواز شریف گیا تو کوئی اور آجائے گا۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر بغیر ٹرائل تو سزا نہیں ہو سکتی۔
محترمہ عاصمہ بی بی کی طرح بزرگ سیاستدان، ن لیگ اور PTI کے سابق صدر جاوید ہاشمی نے بھی یہ سوال اٹھایا ہے کہ کسی کے کہنے پر نواز شریف کو نااہل کرنا، ہٹانے کا ایک طریقہ ہو سکتا ہے احتساب نہیں۔ اس سے پہلے تو کبھی JIT نہیں بنائی جس نے پندرہ بیس کروڑ میں پارٹی ٹکٹ بیچے اس کے خلاف تو کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا، بہتر نہیں تھا کہ دھرنوں پر بھی ایک کمیشن بنا دیا جاتا کہ یہ کیسے اور کیونکر تشکیل پائے۔ یہاں نظریہ ضرورت ایجاد کرتے ہوئے کس کس کو تحفظ فراہم نہیں کیا گیا۔ بھٹو کی پھانسی پر جسٹس نسیم حسن شاہ نے کہا کہ ان پر دباؤ تھا۔ ضیاء الحق نے برملا کہا تھا کہ اگر ججز باز نہ آئے تو ہم اپنی ملٹری کورٹ بنائیں گے اور بھٹو کو ہر قیمت پر پھانسی دیں گے۔ بھٹو کو پھانسی اگرچہ سپریم کورٹ نے دی لیکن آج سب اسے جوڈیشل مرڈر کہتے ہیں۔
جاوید ہاشمی میدانِ سیاست کے وہ شہسوار ہیں، امانت دیانت اور اصول پسندی کے حوالے سے جن پر دلیل کے ساتھ کوئی انگلی نہیں اٹھائی جا سکی، جو اتنے سچے اور کھرے انسان ہیں کہ سیاست میں ہوتے ہوئے بھی ایک باغی کی پہچان رکھتے ہیں۔ اُن کے مندرجہ بالا خیالات پر قومی درد مندی رکھنے والے تمام حلقوں کو ضرور غور و خوض کرنا چاہئے اور یہ سوچنا چاہئے کہ ہم منافرتوں کو بڑھاتے ہوئے وطنِ عزیز کو کس سمت لے جا رہے ہیں۔ جہاں تک احتساب کا تعلق ہے پورے ملک میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں ہو گا جو اس کی اصولی مخالفت یا عدم حمایت کی سوچ رکھتا ہو لیکن انصاف کسی صورت بھی یکطرفہ نہیں ہونا چاہئے آج یہ جو سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ ایک مخصوص پارٹی قیادت کے خلاف آپ لٹھ لے کر پڑ جائیں اور دوسرے طاقتور طبقے کے سامنے آپ آنکھیں موند لیں۔ قرائن جو کچھ بتا رہے ہیں وہ سب کے سامنے ہے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ اس کی نوعیت کیا ہو گی؟ کیا اُن کے لیے یہ موقع باقی چھوڑا جائے گا کہ وہ دوبارہ عوامی عدالت سے رجوع کرتے ہوئے اعتماد کا ووٹ لے سکیں۔ ایسی صورت میں نواز شریف یا جمہوری سسٹم کا بڑا نقصان نہیں ہو گا بشرطیکہ نواز شریف اپنی پارٹی مسلم لیگ ن کو متحد رکھنے میں کامیاب ہو گئے۔ ہم نے تو بہت پہلے جب یہ مخمصہ شروع ہونے جا رہا تھا جناب وزیراعظم کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ پارٹی اتفاق رائے سے اپنے معتمد نمائندے کو سامنے لاتے ہوئے فی الوقت بحیثیت پارٹی صدر کام کریں اور بقیہ حکومتی مدت اس طرح پوری کریں کہ سینیٹ میں کامیابی سمیٹنے کے بعد اسمبلی تحلیل کرتے ہوئے نئے مینڈیٹ کے لیے عوام سے رجوع کریں۔ اب بھی اس کی یہی شکل قائم رہ سکتی ہے لیکن وزیراعظم نواز شریف کے سامنے اصل چیلنج یہ ہے کہ وہ پارٹی کا شیرازہ بکھرنے سے کس طرح بچاتے ہیں کیونکہ مخالف قوتوں کو اپنا اصل مفاد تب تک حاصل نہیں ہو سکے گا جب تک کہ مسلم لیگ (ن) متحد اور مقبول رہے گی۔

 

.

تازہ ترین