• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں لندن کے علاقے ومبلڈن میں رہتا ہوں۔ وہی ومبلڈن جو ٹینس کے کھیل کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ میرے گھر کے پچھواڑے ایک پارک ہے اور اس سے آگے ٹینس کھیلنے کے میدان ہیں جنہیں کورٹ کہا جاتا ہے حالانکہ ان کا عدالت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ آس پاس سارا رہائشی علاقہ ہے جس کے بیچوں بیچ لاکھ ڈیڑھ لاکھ لوگ بیٹھ کر ٹینس کے مقابلے دیکھتے ہیں۔ مگر کمال کے لوگ ہیں۔ علاقے کے باشندوں کا اتنا خیال رکھتے ہیں کہ خاموشی سے آتے ہیں اور چپ چاپ چلے جاتے ہیں۔ لاؤڈاسپیکر پر اعلان کیا جاتا ہے کہ آس پاس سارا رہائشی علاقہ ہے، یہاں آباد باشندوں کے آرام کا خیال رکھئے، کسی قسم کا شور نہ کیجئے۔ اور یہ اعلان بھی دبے دبے لہجے میں کیا جاتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ کھیل کے دوران مجمع تالیاں بجاتا ہے اور بار بار بجاتا ہے مگر مجھے یہاں رہتے ہوئے چالیس برس ہو چکے ہیں، تالیوں کا شور میرے گھر تک کبھی نہیں پہنچا۔ شاید مہذب لوگوں کی تالیاں بھی اور طرح کی ہوتی ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ٹینس کے یہ یادگار مقابلے دیکھنے کے لئے میں آج تک وہاں نہیں گیا حالانکہ میرے گھر سے کھیل کے میدان کے درمیان فاصلہ اگر انگریزی میں بیان کروں تو یو ں ہو کہ کوّے کی اڑان کے برابر ہے۔ لیکن ان لاکھوں شائقین کی بھیڑ بھاڑ میں گھسنا میرے بس کا روگ نہیں۔ اس کے علاوہ وہی کھیل گھر بیٹھ کر ٹیلی وژن پر دیکھنے میں جو لطف ہے وہ بھیڑ بھڑکے میں نہیں۔ یہی حال کرکٹ کا ہے، گیند کا ہوا میں جھونکا کھانا، زمین پر ٹپّہ کھاکر رخ بدلنا جیسے ٹی وی میں نظر آتا ہے خود میدان میں وہ باریکیاں سجھائی نہیں دیتیں۔ ہاں تو ٹینس کا قصہ یہ ہے کہ میں نے خود کبھی جاکر نہیں دیکھا لیکن میرے بچّے جب تک چھوٹے تھے، اکثر جاکر میچ دیکھتے تھے۔ مقابلے کا ٹکٹ خریدنا تو ان کے بس میں نہیں تھا،محلے کے لڑکے لڑکیاں کورٹ کے باہر کھڑے ہو جاتے تھے اور پہلے سے اٹھ کر واپس جانے والوں سے ان کے ٹکٹ مانگ لیتے تھے اور پھر شان سے بیٹھ کر باقی مقابلہ دیکھا کرتے تھے اور وہ بھی شاندار کلاس میں۔ میرا بیٹا ایک بار اسی مانگے تانگے ٹکٹ پر میچ دیکھنے بیٹھا تو اسے احساس ہوا کہ وہ عمران خان کے برابر بیٹھا ہے۔ کچھ بھی ہو میرا بیٹا تھا، اس نے عمران کا انٹرویو کر لیا۔ اس گفتگو کو نہیں دہراؤں گا، کہیں عدالت کی توہین نہ ہوجائے۔
ٹینس کے ان مقابلوں کی شان ہی نرالی ہوتی ہے۔ انگریز لوگ اس وقت بڑے جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہیں جب مقابلے میں کوئی انگلستانی کھلاڑی شریک ہو۔ٹکٹ کے خواہش مندوں کی قطار ہمارے پارک کے میدان میں لگتی ہے۔لوگ ایک روز پہلے خیمے لگا کر رات بھر وہیں سوتے ہیں او رصبح اپنا ٹکٹ خریدتے ہیں۔ پھر اپنے ہم وطن کھلاڑی کے حوصلے بڑھانے کیلئے تمام حدوں سے بڑھ جاتے ہیں لیکن ایک بات طے ہے۔ اگر ہم وطن کھلاڑی ہار جائے، جو بارہاہارتا ہے تو کیا مجال کہ کوئی ہنگامہ یا فساد کریں۔ ناممکن ہے کہ دھاندلی کا الزام لگائیں۔ ٹینس کے میدان کو کورٹ کہتے ہیں لیکن ہم نے ہارنے والوں کو کسی کورٹ میں جاتے، اپیل کرتے یا اسٹے آرڈر لیتے آج تک نہیں دیکھا۔خود اصل میدان کی روایت دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ مقابلے کے آخر میں دونوں کھلاڑی ایک دوسرے سے ہاتھ ضرور ملاتے ہیں او رجیتنے والا اپنے حریف کی پیٹھ تھپتھپا کر اسے چھوٹی سی شاباشی ضرور دیتا ہے۔یہاں ایک اور کیفیت بیان کرنا ضروری ہے۔ یہ انگریز لوگ جب میچ دیکھنے بیٹھتے ہیں تواچھا کھیلنے والے کو داد تو دیتے ہیں لیکن عجب مزاج پایا ہے اس مخلوق نے، یہ کمزور کھلاڑی یا ہارتے ہوئے کھلاڑی کے حمایتی بن جاتے ہیں اور تالیاں بجا بجا کر اس کے حوصلے بڑھاتے ہیں۔ ایسے کھلاڑی کو ان کی زبان میں ’لنگڑی بطخ‘ کہا جاتا ہے۔
کھیلوں کے تمام مقابلو ں کی طرح ٹینس میں بھی امپائر کے فیصلے پر کبھی کبھی اختلاف ہو جاتا ہے۔مجھے یاد ہے یہاں ایک نوجوان امریکی کھلاڑی آیا کرتا تھا جو بہت اچھا کھیلتا تھا اور دنیا اس کے کھیل کا دم بھرتی تھی مگر کم بخت میں ایک عیب تھا۔ غصّہ اس کی ناک کی نوک پر رکھا رہتا تھا۔ بات بات پر برہم ہوجاتا تھا اور ریفری بڑی مشکل سے اسے سمجھاتا بجھاتا تھا۔ لوگ اس تماشے سے بھی لطف اٹھاتے تھے اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ سر پھٹوّل کی نوبت آئی ہو۔ اور ہاں، عورتوں اور مردوں کے کھیل میں دلچسپ فرق ہوتا ہے۔ عورتوں کے مقابلے زیادہ سے زیادہ تین راؤنڈ میں طے ہوجاتے ہیں۔ اگر ایک خاتون پہلے دو راؤنڈ جیت جائے تو فاتح قرار پاتی ہے۔ لیکن مردوں کو پانچ راؤنڈ بھگتانے پڑتے ہیں اور کبھی کبھی تو میچ ایک دن میں ختم نہیں ہوپاتا۔ غالباً مردوں میں دم زیادہ ہوتا ہے۔ اس کا مظاہرہ یوں دیکھنے میں آتا ہے کہ خواتین کھلاڑی شور بہت مچاتی ہیں۔ یوں سمجھئے کہ وہ جب پور ا دم لگا کر کوئی شاٹ مارتی ہیں تو ایک طرح سے ہائے ہوئی کی آواز ضرور نکالتی ہیں۔ یہ آواز اتنی اونچی ہوتی ہے کہ پورے علاقے میں گونجتی ہے۔ ایک بار لوگوں نے اس پر اعتراض کیا اورمطالبہ کیا کہ زور لگانے کی آواز ممنوع قرار دی جائے مگر کچھ اور لوگوں نے کہا کہ مردوں کو کس نے روکا ہے؟ اور یہ کہ جاندار کھیل کی یہی شان ہوتی ہے۔
سارا لطف کھیل کے جاندار ہونے ہی میں ہے۔ اس کی خاطر یہ لوگ کیسے کیسے جتن کرتے ہیں۔ مل جل کر کھیلتے ہیں۔ کھیل کو تنازعہ نہیں بناتے، لڑتے ہیں نہ جھگڑتے ہیں۔ کھیل کو کھیل سمجھتے ہیں، ہارجائیں تو عزت کو بٹّہ نہیں لگتا، سر جھکا کر ہار مان لیتے ہیں، بعد میں کوئی اخباری کانفرنس نہیں کرتے، کوئی الزام نہیں لگاتے، بلکہ جیتنے والے کی تعریف ہی کرتے ہیں۔ جیتنے والا بھی ہارنے والے کی خوبیوں کا اعتراف کرتا ہے اور اپنے لفظ چباتا نہیں، صاف لفظوں میں جہاں تعریف کرنی ہو، تعریف کرتا ہے۔ دونوں اگلے برس کی تیاری کے ارادے باندھتے ہوئے، مجمع کی تالیوں کا ہاتھ ہلا کر جواب دیتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ ان کی اس ادا کا بھی جواب نہیں۔

تازہ ترین