• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جے آئی ٹی والے ہوں یا کوئی اور!وہ بہت کچھ جانتے ہوں گے لیکن انہیں یہ علم نہیں ہوگا کہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اس بات پر مکمل یقین رکھتی ہے کہ اگر نواز شریف کی حکومت کو کچھ ہوتا ہے یا اسے کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ملک ایک بار پھر بہت پیچھے چلا جائے گا۔ گزشتہ چند روز سے مجھے ہزاروں فون اور میسجز موصول ہورہے ہیں جن سے پاکستانی عوام کی بے چینی کا اظہار ہوتا ہے۔میں محسوس کرتا ہوں کہ نواز شریف سے صرف سیاسی سطح پر نہیں ذاتی سطح پر بھی بہت محبت کرتے ہیں، شاید اس کی وجہ ان کی طبیعت کا انکسار، ان کے خاندان کا مشرقی روایات سے جڑا ہونا، ان کی خدا ترسی اور دوسری انسانی صفات جن کی وجہ سے پاکستانی عوام کی ایک بہت بڑی تعداد انہیں ایک ہیرو کے روپ میں دیکھتی ہے۔ اخبارات اور میڈیا سے مختلف النوع خبریں اور تجزئیے دیکھنے والے ایک اسی طرح کے عاشق کا فون مجھے لاڑکانہ سے آیا، آپ یقین کریں اس کی آواز بھرائی ہوئی تھی اس نے بتایا کہ وہ تین دنوں سے سو نہیں سکا۔ میں نے اسے کہا’’دوست، مسئلہ حل بھی جاگتے رہنے ہی سے ہونا ہے، اگر تو نے آنکھ جھپکی تو منظر مزید ڈرائونا ہوجائے گا۔
جیسا کہ میں نے کل بھی لکھا تھا کہ زمانہ بدل گیا ہے، اب لوگ بولنے لگے ہیں اور یہ آوازیں ایسے کونوں سے آرہی ہیں جدھر سے پہلے ہمیشہ خاموشی ہی’’سنائی‘‘ دیتی تھی۔ ابھی میں نے فیس بک پر ایک ایسے ہی صاحب کی پوسٹ دیکھی جو میں یہاں محض نقل کررہا ہوں۔ اس کی تصدیق کی پوزیشن میں نہیں ہوں میں اس انگریزی پوسٹ کا اردو ترجمہ یہاں پیش کررہا ہوں۔ ملاحظہ فرمائیں۔
’’سپریم کورٹ میں وسائل سے زیادہ اثاثے رکھنے والے کیسز کی ایک تازہ ترین مثال غنی رحمان بنام نیب (PLD2011SC1144)ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلہ تحریر کرتے ہوئے ملزم کو بری کردیا کہ سزا سنانے کے لئے محض اثاثوں کی شناخت کافی نہیں۔ تاوقتیکہ اتھارٹی اور اثاثوں میں اضافے کے درمیان تعلق ثابت ہوجائے۔ہم درخواست گزار کی نمائندگی کرنے والے فاضل وکیل کے موقف کو درست سمجھتے ہیں کہ درخواست گزار کے خلاف دائر کردہ ریفرنس اور اس پر ٹرائل کورٹ کا عائد کردہ الزام یہ ہے کہ اس نے بطور چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل اور صوبائی وزیر اپنی اتھارٹی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اثاثے اور مالی وسائل جمع کئے لیکن استغاثہ ٹرائل کورٹ کے سامنے سائل کے بطور چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل اور صوبائی وزیر اپنی اتھارٹی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر دولت میں اضافہ کرنے یا اثاثے بنانے کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کرسکا‘‘۔
اس کے علاوہ جاوید ہاشمی نے جو کچھ کہا ہے ، اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ’’ پاناما لسٹ میں ایک حاضر سروس جج صاحب کا نام ہے، کیا ان سے بھی کبھی باز پرس ہوگی؟ سپریم جوڈیشل کونسل نے کیا ا ٓج تک کسی جج کو کوڈ آف کنڈکٹ کے خلاف کسی عمل پر کوئی سزادی ہے؟ پرویز مشرف اپنی لیفٹنی کے دوران بھگوڑا ہوگیا تھا، آج بھی بھگوڑا ہے کسی کی ہمت ہے کہ اس کا احتساب کرسکے؟ عمران خان نے مجھے کہا کہ تصدق حسین جیلانی کے بعد ہمارے ہم خیال جج آنے والے ہیں جو نواز شریف کو چلتا کریں گے، پارلیمنٹ توڑ دیں گے اور عمران خان کے لئے رستہ ہموار کریں گے۔ پاکستانی فوج کے بہت سے جرنیل جہانگیر کرامت، جنرل پاشا، جنرل راحیل شریف وغیرہ باہر اربوں کی جائیداد کے مالک ہیں، کوئی ہے جو اس پر سوال اٹھا سکے؟ سپریم کورٹ کا بنچ’’اپنے کنڈکٹ پر‘‘ اپنی آبزوریشن سے فیصلے سے پہلے فیصلہ سنا چکا ۔ اس لئے وہ اپنا حق سماعت کھو چکا۔ اس بنچ کو خود کو سماعت سے ود ڈرا کرلینا چاہئے۔‘‘(منسوب) اب جاوید ہاشمی نے جو کچھ کہا ہے، اگر غلط ہے تو ان سے پوچھا جائے اور اگر غلط نہیں ہے تو پھر سوچا جائے۔
مجھ سے سنجیدہ کالم لکھے نہیں جاتے، چنانچہ مجھے آخر میں کوئی نہ کوئی ’’لچ‘‘ تلنا ہی پڑتا ہے۔ ایک جملہ شیخ رشید صاحب کے حوالے سے فیس بک پر دیکھنے کو ملا ہے، اگر شیخ صاحب نے ٹی وی پر میرا نام لے کر مجھے گالیاں نہ دی ہوتیں تو میں یہ جملہ شاید یہاں درج نہ کرتا، مگر اب آپ سن لیں، انجوائے کریں گے’’شیخ رشید کو سیاستدانوں میں وہ مقام حاصل ہے جو بیماریوں میں بواسیر کو حاصل ہے‘‘ چلتے چلتے ایک فنی جملہ اور یہ جملہ پی ٹی آئی کے ایک پرجوش رکن کا ہے’’عمران خان سے مودبانہ التماس ہے کہ اب اس تاریخی موقع پر کوئی شادی وادی والی’’چول‘‘ نہ ماردینا‘‘۔

تازہ ترین