• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہوائیں کہہ رہی ہیں کہ وزیر اعظم کا جانا ٹھہر گیا ہے۔نون لیگ کے درخت سے زردپتے جھڑنے والے ہیں ۔خزاں کی تند و تیز آندھی میں وزیراعظم نواز شریف کسی مضبوط تنے کی طرح کھڑے ہونے کی کوشش میں ہیں ۔مستعفی ہونے سے ان کا واضح انکار حیرت انگیز نہیں۔اپنے طور پر انہوں نے طوفانوں سے محفوظ رکھنے والی زرہ بکتر پہن لی ہے۔کیا کریں ۔ان کے پاس اس کے سوا اورکوئی بھی راستہ تونہیں ہے۔وہ حقائق سے نبرد آزما ہیں اور اتنے سادہ لوح بھی نہیں کہ گاڈ فادر اور سسلین مافیا کے القاب دینے والوں سے یہ امید یں لگالیں کہ وہ جے آئی ٹی کی رپورٹ رد کر کے ان کے حق میں فیصلہ دیں گے ۔اس امید پر وہ پتھر کیسے نچوڑ سکتے ہیں کہ ان سے آبِ زمزم بہہ نکلے گا ۔
بے شک ابھی نون لیگ کی نشریات یہی کہہ رہی ہیں کہ ’’ہم سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم کریں گے ‘‘۔ لیکن پچھلے دروازوں سے آنے والی خبر یں اِس کے برعکس ہیں ۔دل و دماغ میں یہ طے کرلیا گیا ہے کہ وہ زہر آلود اعلان جوسانپ کی پھنکار کی طرح ہر شخص کی زبان پر ہے اگر پٹاری سےوہی نکل آیا تونون لیگ قومی اسمبلی کی عمارت میں بیٹھ کر ساتھ والی عمارت کا مقابلہ کرے گی ۔کہا جائے گا کہ پارلیمان کو ہر ادارے پر فضلیت حاصل ہے اورچونکہ سپریم کورٹ آئینی طور پر جے آئی ٹی نہیں بنا سکتی تھی اس لئے اسپیکر قومی اسمبلی پر لازم نہیں کہ وہ وزیر اعظم کی نااہلی کے فیصلے پر عمل درآمد کرے اُس کے ساتھ ہی صدر ممنون حسین فوری طور پر آرٹیکل پینتالیس کے تحت وزیر اعظم کو سنائی گئی سزا کو ختم کرنے کا اعلان کر دیں گے ۔بقول عابد حسن منٹو ’’ جب صدر کی طرف سے سزا معاف کر دی جاتی ہے تو پھر اس کے اثرات بھی ختم ہو جاتے ہیں۔‘‘ رحمن ملک کو سنائی گئی سزائیں سابق صدر آصف علی زرداری نے ان کے عدالت سے باہر نکلنےسے پہلے ہی ختم کردی تھیں ۔یہ اور بات کہ جب سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو چند منٹ کی سزا سنائی گئی تھی تو سابق صدر نے وہ معاف نہیں کی تھی ۔(اپنی اپنی قسمت کی بات ہے )سابق صدر رفیق تارڑ نے بھی ایک مرتبہ وزیر اعظم نواز شریف کوسنائی گئی سزا ختم کی تھی ۔
یہ نہیں کہ سپریم کورٹ کو بالکل نظر انداز کر دیا جائے امکان ہے کہ وزیر اعظم کے وکلا ء کی ٹیم عدالت عظمیٰ میں جے آئی ٹی اور فیصلہ دینے والے پورے بنچ کے خلاف ایک مقدمہ دائر کرے گی ۔امید کی جارہی ہے کہ اسے ایک لاجر بنچ سنے گا۔
نون لیگ یہ توقع بھی رکھتی ہے کہ اس طرح کے اقدامات پر تحریک انصاف ایک ملک گیر تحریک شروع کرے گی ۔سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کےلئے دھرنا تھری ہوگااوراس مرتبہ احتجاج میں پی ٹی آئی کے ساتھ تقریباً تمام اپوزیشن جماعتیں بھی ہونگی ۔گلی گلی میں پولیس اورعوام کے درمیان آنکھ مچولی کھیلی جائے ۔آنسو گیس کے خالی شیلوں کے ڈھیر لگ جائیں ۔عین ممکن ہے جمہوریت کی ریل کار پٹری سے بھی اتر جائے ۔ایسی صورت میں مسلم لیگ نون مظلوم قرار پائے گی ۔صرف پاکستانی عوام میں نہیں ۔دنیا کی تمام جمہوریت نواز قوتوں کے سامنے بھی ۔وہ تمام ایسی صورت میں ان کے پس پشت کھڑی ہوں گی ۔
خیال کیا جارہاہے کہ ٹکرائو شاید وزیر اعظم کی مجبوری ہے اگر وہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم کر تے ہیں اور پوری فیملی سمیت نا اہل ہوجاتے ہیں تو پھردنیا بھر میں اس فیملی کے جہاں بھی اثاثے موجود ہیں وہ منجمد ہوجائیں گے ۔خاص طور پر برطانیہ میں منی لانڈرنگ کے قانون کے تحت برطانوی حکومت انہیں اپنے تحویل میں لے لے گی ۔پاکستان میں نیب یا ایف آئی اےکے مقدمات اُن کا مقدر بن جائیں گے اور اگر اِن اداروں نےسپریم کورٹ کے زیر نگرانی جے آئی ٹی کی سفارشات کے مطابق کام کیا تو نہ صرف وزیر اعظم گرفتار ہوسکتے ہیں بلکہ پاکستان میں موجود اُن کے تمام اثاثے بھی محفوظ نہیں ۔یعنی وزیر اعظم نواز شریف کے پاس مقابلہ کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں رہاایک راستہ جو انہیں کئی ہمدردوں نے دکھایا ہے کہ وہ مستعفی ہوجائیں اور کسی ایسے شخص کو وزیر اعظم بنا دیں جو ان کا بھرپور ساتھ دے اورمقدمات سے انہیں باعزت بری کراسکے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ شخص کون ہو سکتا ہے ۔
وزیر اعظم تواپنے سگے بھائی پر اعتماد نہیں کر پا رہے۔ کسی اور پر کس طرح اعتماد کریں ۔حمزہ شریف ایم این اے ہے۔سگا بھتیجا ہے ۔اسے فوری طور پر وزیر اعظم بنایا جاسکتا ہے مگر یہ بات ان کی بزم میں کی ہی نہیں جا سکتی ۔کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ نااہل ہونے کی صورت میں خواجہ آصف کو وزیر اعظم بنائیں گے مگر یہ بات چوہدری نثار کی موجودگی میں ممکن نہیں اور اس معاملہ میں وزیر اعلی شہباز شریف بھی چوہدری نثار کے ساتھ ہیں۔سو خواجہ آصف یا ان کے حلقے احباب میں سے کسی کو وزیر اعظم بناناخطرے سے خالی نہیں ۔دوسری طرف چوہدری نثار ہیں ۔پارلیمانی اجلاس میں چوہدری نثار نے جو گفتگو کی ہےاس کے بعد تو ممکن ہی نہیں رہا کہ وزیر اعظم چوہدری نثار یا اس کے حلقہ احباب میں سے کسی کو وزیر اعظم بنانے کا سوچیں ۔ذرا سوچئے کہ چوہدری نثار کا یہ جملہ کہ ’’اب کوئی معجزہ ہی آپ کو بچا سکتا ہے‘‘ ۔ اپنی تمام ترسفاکی کے باوجود وزیر اعظم کے اعتماد کو متزلزل نہیں کر سکا۔انہوں نے آخری سانس تک مقابلہ کرنےکا فیصلہ کرلیا ہے ۔کیونکہ ان کے نزدیک ان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ پاکستان کا ایک بڑا مافیا یہ بھی چاہتا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ساتھ عمران خان اور آصف زرداری کو بھی نااہل قرار دلا یا جائے مگر میرے خیال میں بجز مارشل لا ایسا ممکن نہیں اور افواج پاکستان کے موجودہ سربراہ آئین کی اُس تشریح کی حفاظت کرنے کامصمم ادارہ رکھتے ہیں جو سپریم کورٹ کرےگی۔یعنی پاکستان میں وہی کچھ ہوگا جو عدالت عظمی درست سمجھے گی۔چاہے اسے نون لیگ جوڈیشل مارشل لا ہی کیوں نہ کہے ۔

تازہ ترین