• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دبئی کمپنی میں عہدہ رسمی تھا، نواز شریف، شیئر ہولڈر رہا نہ ڈائریکٹر، نہ تنخواہ لی، اقامہ اور ملازمت کی تفصیلات چھپائی نہیں

Todays Print

اسلام آباد (رپورٹ:رانا مسعود حسین، عاصم جاوید) عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ’’پاناما پیپرز کیس‘‘ میں جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ کے والیم 9میںمسول علیہ نمبر ایک وزیر اعظم میاں نواز شریف کے حوالہ سے دی گئی فائنڈنگ کے جواب میں مسول علیہ کی جانب سے تحریری جواب جمع کرادیا گیا ہے۔

جس میں کہاگیا ہے کہ دبئی کمپنی میں عہدہ رسمی تھا، کمپنی کا شیئر ہولڈر رہا نہ ڈائریکٹر نہ تنخواہ لی، کمپنی دستاویزات سے انکار نہیں، شوگر ملز کا چیف ایگزیکٹو لکھا جانا بھی غلطی ہے، آرٹیکل 62ون ایف کا اطلاق حقائق جانے بغیر نہیں کیا جاسکتا، 2013 کے الیکشن میں جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی میں بھی کمپنی کا حوالہ موجود ہے، تمام رقوم ظاہر کرچکا، جے آئی ٹی کے پاس زائد اثاثوں کا ثبوت نہیں۔

مسول علیہ نمبر ایک کی جانب سے یہ جواب ان کے وکیل خواجہ حارث احمد نے جمع کروایا ہے، جس میں میاں نواز شریف کے یو اے ای میں اقامہ اور ان کی ملازمت کی وضاحت پیش کی گئی ہے، جواب میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مسول علیہ نے متحدہ عرب امارات میں اقامہ لیا تھا تاہم جے آئی ٹی کی جانب سے ان پر کیپیٹل یف زیڈ ای کی ملازمت چھپانے کا الزام جھوٹا ،بے بنیاد اور غلطی پر مبنی ہے ، 2013 کے عام انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن کو فراہم کی جانے والی دستاویزات میں انہوں نے اقامہ اور ملازمت کی تفصیلات چھپائی نہیں تھیں بلکہ ان تفصیلات کا عکس ان کے پاسپورٹ میں موجود تھا، 2013ء کے عام انتخابات کے دوران این اے 120 کے لئے کاغذات نامزدگی فارم میں اقامہ اور ملازمت کی تفصیلات کا کالم ہی موجود نہیں تھا۔

مسول علیہ نے واضح کیا ہے کہ وہ کبھی بھی چوہدری شوگر ملز کے سی ای او نہیں رہے ہیں جس کی تصدیق ایس ای سی پی کے فارم اے سے کی جا سکتی ہے، تاہم وہ جون 2016تک چوہدری شوگر ملز کا اسٹیک ہولڈر رہے ہیں ، مسول علیہ نے وضاحت کی ہے اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بنک نے اکائونٹ کھولتے وقت غلطی سے انہیں بطور سی ای او لکھ دیا تھا، بورڈ آف ڈائریکٹرز کی قرار داد کی روشنی میں مسول علیہ کو یکم اکتوبر2009کو چوہدری شوگر ملز کا ایڈوائزر مقرر کیا گیا تھا جسکا ذکر بھی ٹیکس ریٹرن میں موجود ہے۔ مسول علیہ نے بیان کیا ہے کہ کیپیٹل ایف زیڈ ای دبئی کے اکنامک فری زون جبل علی فری زون اتھارٹی کے ٹریڈنگ لائسنس اور رجسٹریشن کے ذریعے یکم اکتوبر 2001 کو قائم ہوئی تھی اور جے آئی ٹی نے مسول علیہ کا اسکے ساتھ تعلق قائم کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کیلئے جبل علی فری زون اتھارٹی کی دستاویزات پر انحصار کیا ہے ،لیکن مسول علیہ وہ اس کمپنی کے حصص میں نہ توشراکت دار رہے ہیں،نہ ہی ڈائریکٹر یا سیکرٹری،نہ ہی کبھی کسی دستاویز پر دستخط کئے ہیں اور نہ ہی کبھی10ہزار درہم تنخواہ لی ہے ، اس لئے اس تنخواہ کو مسول علیہ کے اثاثے میں شامل نہیںکیا جاسکتا ہے۔

انہوںنے مزید لکھا ہے کہ 2007میں جلاوطنی کے دنوں میں ایک رسمی عہدہ لیا تھا لیکن نہ تو اس کمپنی کو چلا رہے تھے اور نہ ہی وہ اس کے کسی امور کے نگران تھے ،جبکہ ان کا یہ رسمی عہدہ بھی کیپیٹل ایف زیڈ ای کی تحلیل کے ساتھ ہی ختم ہوگیا تھا۔ انہوں نے مزید لکھا ہے کہ انہوںنے جے آئی ٹی کی جانب سے کیپیٹل ایف زیڈ ای سے متعلق دستاویزات سے کبھی انکار نہیں کیا ہے ،اگر وہ انکے علم میں لائی جاتیں تو میں اس کی وضاحت ضرور کرتا۔ مسول علیہ نے نہ صرف یو اے ای کی آف شور کمپنی کیپیٹل ایف زیڈ ای میں نوکری کی بلکہ اقامہ بھی حاصل کیا تھاجس کا حوالہ 2013کے عام انتخابات کیلئے جمع روائے گئے کاغذات نامزدگی میں بھی موجود ہے۔انہوں نے جے آئی ٹی کے اس الزام کو مسترد کردیا ہے کہ انہوں نے کیپیٹل ایف زیڈ ای میں نوکری کو چھپایا ہے۔ مسول علیہ نے کہا ہے کہ اگر یہ معاملہ کسی فورم کو بھجوایاجاتا ہے تو اس عدالت (سپریم کورٹ ) کی آبزرویشنز سے مسول علیہ بری طرح متاثر ہو سکتا ہے ،کسی بھی عوامی عہدہ کے حامل شخص کے خلاف آئین کے آرٹیکل 62(1)fکو لاگو کرنے کے لئے ڈیو پراسس ضروری ہے، جبکہ آئین کے آرٹیکل 4اور 10اے کے مطابق یہ معاملہ آئین کے آرٹیکل 184(3)کے دائرہ کار میں نہیں آتا ہے ،مسول علیہ نے فاضل عدالت سے عمران خان کی درخواست خارج کرنے کی استدعا کی ہے ۔

نیوز ایجنسیاں کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم(جے آئی ٹی)کی رپورٹ کی جلد9میں اٹھائے گئے نکات پر جواب سپریم کورٹ میں داخل کرادیا جس میں موقف اختیارکیاگیاہے کہ رپورٹ میں آمدن اور اثاثہ جات سے متعلق پیرا قیاس آرائیوں پرمبنی ہے، تمام رقوم اور اثاثہ جات ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں ظاہرکرچکا ہوں،جے آئی ٹی کی سفارشات کاکوئی قانونی پہلو نہیں، اقامہ اور ایف زیڈ ای کی ملازمت چھپانے کا الزام درست نہیں، یو اے ای کا اقامہ 2013کے کاغذات نامزدگی میں ظاہر کیاگیا،چوہدری شوگر ملزم کا چیف ایگزیکٹو لکھا جانا غلطی ہے، آرٹیکل 62ون ایف کا اطلاق حقائق جانے بغیر نہیں کیا جاسکتا، وزیراعظم 2009تک شوگر ملز کے ایڈوائزر، 2016 تک شیئر ہولڈر رہے، جلا وطنی کے دوران اخراجات شوگرملز نے برداشت کیے، 2010 میں ملز سے لی گئی رقم واپس کر دی، 2015میں ملز کی جانب سے بڑی رقم کی ادائیگی کی غلطی کا احساس ہوا، چوہدری شوگر ملزم کا چیف ایگزیکٹوو نہیں رہا، جے آئی ٹی کے پاس آمدن سے زائد اثاثوں کا ثبوت نہیں۔ وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے سپریم کورٹ میں تحریری جواب کرایا ہے ۔

میڈیارپورٹس کے مطابق تحریری جوا ب کے متن میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کی جانب سے آمدن اور اثاثہ جات سے متعلق ’پیرا‘ قیاس آرائیوں پرمبنی ہے، تمام رقوم اور اثاثہ جات ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں ظاہرکرچکا ہوں، جے آئی ٹی کی سفارشات کاکوئی قانونی پہلو نہیں، جے آئی ٹی نے وزیراعظم کے آمدن سے زائد اثاثوں کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں دیئے جبکہ ایف زیڈ ای کی ملازمت چھپانے کا الزام درست نہیں۔ وزیراعظم نے اپنے جواب میں کہا کہ انہوں نے اقامہ اورایف زیڈ ای میں ملازمت کاغذات نامزدگی میں ظاہرکی، کاغذات نامزدگی میں ایسی معلومات فراہم کرنے کیلئے کوئی الگ خانہ نہیں، ایس ای سی پی کے ریکارڈ سے واضح ہے وزیراعظم کبھی چوہدری شوگر ملز کے سی ای او نہیں رہے، وزیراعظم چوہدری شوگرملزکے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ایڈوائزریکم اکتوبر 2009 کو بنے، وزیراعظم کے جلا وطنی کے دوران اخراجات چوہدری شوگرملز نے برداشت کئے، وزیراعظم نے 2010 کے اختتام میں چوہدری شوگر ملز سے لی گئی رقم واپس کر دی، 2015 میں چوہدری شوگر ملز کی جانب سے بڑی رقم کی ادائیگی کی غلطی کا احساس ہوا، وزیراعظم 2016 تک چوہدری شوگرملز کے شیئر ہولڈر رہے جبکہ شیئر ہولڈرہونے کا مطلب چیف ایگزیکٹو ہونا نہیں۔

جواب میں مزید کہا گیا کہ نجی بینک میں اکاؤنٹ کھلوانے کیلئے وزیراعظم کو چوہدری شوگرملزکا چیف ایگزیکٹو لکھا جانا غلطی ہے، آرٹیکل ( 62 ون ایف ) کا اطلاق حقائق جانے بغیرنہیں ہوسکتا، آرٹیکل 184 تین میں 62 ون ایف کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا، سپریم کورٹ کی فیصلے میں آبزرویشن فریقین کے کیس کو نقصان پہنچائے گی جبکہ وزیراعظم کی جانب سے استدعا کی گئی کہ سپریم کورٹ عمران خان کی درخواست کوخارج کرے۔ دریں اثناء وزیراعظم کے عام انتخابات 2013 کے کاغذات نامزدگی کے مطابق نواز شریف نے عام انتخابات 2013 کے کاغذات نامزدگی میں یو اے ای اقامہ ظاہر کیا ہوا ہے، کا غذات نامزدگی کے صفحہ نمبر 87 پر وزیر اعظم نے اقامہ ظاہر کیا جبکہ اقامہ میں وزیراعظم نے خود کو ایف زیڈ ای کیپٹل کا چیئرمین آف دی بورڈ بھی ظاہر کیا ہے۔وزیراعظم کی جانب سے جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی میں اقامہ اور ایف زیڈ ای کی چیئرمین شپ سفری ریکارڈ میں ظاہر کیا گیا جبکہ کاغذات نامزدگی پر سجاد احمد ریٹرنگ آفیسر این اے 120 کے دستخط بھی موجود ہیں۔ کاغذات نامزدگی کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے 18 جنوری 2008 کو جاری کردہ پاسپورٹ پر اقامہ ظاہر کیا، وزیر اعظم کو اقامہ 5 / 6 / 2012 کو جاری کیا گیا جسکے ختم ہونے کی مدت 4 / 6 / 2015 تھی۔

،اقامے کے مطابق وزیر اعظم کمپنی کے بورڈ چیئرمین ہیں اور اس اقامے پر وزیر اعظم نے کئی بار یو اے ای کا سفر کیا، ان دستاویزات پر این اے 120 کے ریٹرننگ افسر کی تصدیق کی مہر بھی ثبت ہے۔ وزیر اعظم نے ان کاغذات نامزدگی کے حوالے سے سپریم کورٹ کو بھی آگاہ کیا تھا۔ وزیراعظم نے الیکشن کمیشن کو اقامہ سے آگاہ کر دیا، کاغذات نامزدگی کے ساتھ تمام سفری دستاویزات بھی لف کر دی گئی ہیں ۔

تازہ ترین