• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور کی پرانی سبزی منڈی کے قریب جہاں سول انتظامیہ تجاوزات ہٹا رہی تھی سیکورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں پرخود کش حملہ اس حقیقت کی جانب واضح اشارہ ہے کہ آپریشن ضرب عضب، آپریشن ردالفساد اوراب آپریشن خیبر فور کے باوجود پاکستان دشمن قوتیں اپنی سازشوں سے باز نہیں آئیں اور ان کے کارندے موقع ملتے ہی ملک میں کسی نہ کسی جگہ بے گناہ انسانوں کا خون بہانے سے دریغ نہیں کرتے۔ اس سانحہ دلگداز نے اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھایا ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے سیاسی و عسکری قیادت نے جو قومی ایکشن پلان بنایا تھا وہ پوری طرح کامیاب نہیں ہوا اور اس پر عملدرآمد میں موجود خامیوں کی نشاندہی اور انہیں دور کرنے کیلئےمؤثر ترین عملی اقدامات کی ضرورت وقفے وقفے سے ملک کے مختلف مقامات پر ہونے والے حالیہ انسانیت سوز واقعات کے بعد اور بڑھ گئی ہے۔ پیر کی سہ پہر فیروز پور روڈ لاہور پر ہونے والے خود کش دھماکے میں 9پولیس اہلکاروں اور 17عام شہریوں سمیت 26افراد شہید اور 5درجن کے قریب زخمی ہو گئے۔ موٹر سائیکل یا رکشا پر سوار سولہ، اٹھارہ سال کے نوجوان نے پولیس اہلکاروں کے قریب خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔8سے10کلو وزنی بارودی مواد پر مبنی دیسی ساختہ بم پھٹنے سے جائے وقوع پر موجود کئی گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں بھی تباہ ہو گئیں دھماکے کے بعد شہیدوں اور زخمیوں کو اٹھانے کیلئے پولیس کے علاوہ فوج اور رینجرز کے جوان بھی پہنچ گئے اور اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ پنجاب کے دارالحکومت اور پاکستان کے دل لاہور پر تقریباً ایک سال کے عرصے میں دہشت گردوں کا یہ تیسرا حملہ ہے۔ پاکستان تحریک طالبان نے جس کا سربراہ ملا فضل اللہ اعلانیہ افغانستان میں اپنے دہشت گرد گروپ کے ساتھ مقیم ہے، دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ قومی زعما نے اس اندوہناک واقعے کی شدید مذمت کی ہے اور ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے پاک کرنے کے مصمم عزم کا اظہار کیا ہے۔ اسی روز جی ایچ کیو راولپنڈی میں افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جان نکلسن نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی اور ان سے خطے کی سلامتی، پاک افغان بارڈر مینجمنٹ اور باہمی دلچسپی کے دوسرے معاملات پر تبادلہ خیال کیا، آرمی چیف نے اس موقع پر لگی لپٹی کے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو داغدار بنانےکیلئے افغانستان اور امریکہ میں بعض حلقوں کی جانب سےالزام تراشیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔ امریکہ کی طرف سے پاکستان کیلئے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اخراجات روکنے اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف ڈومور، کے مطالبے کا ذکر کئے بغیر جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ یہ محض اتفاق نہیں کہ اس موضوع کو ایسے وقت اٹھایا جا رہا ہے جب امریکہ میں پاکستان کے متعلق پالیسی پر نظر ثانی کی جا رہی ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اشتعال انگیزی کے باوجود اپنا مثبت کردار جاری رکھے گا کیونکہ دہشت گردوں کو شکست دینا ہمارے قومی مفاد میں ہے۔ آرمی چیف نے درست کہا کہ امریکی اور افغان حلقوں کے بے بنیاد الزامات دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیاں اور کردار کی نفی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نیٹو فورسز کی مدد کے باوجود افغانستان میں دہشت گردی ختم نہیں کرسکا اور اپنی خفت مٹانے کیلئے اب پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگا رہا ہے۔ جہاں تک پاکستان میں آئے روز ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کا تعلق ہے تو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہئے کہ انہیں صرف دفاعی اقدامات سے نہیں روکا جا سکتا اس کیلئے دہشت گردوں کے انتہا پسندانہ نظریات کو بھی شکست دینا ہو گی۔ جو علما، دانشوروں اور مصلحین سمیت پوری قوم کی ذمہ داری ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا فرض بخوبی نبھا رہے ہیں۔ صرف انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کردار کر مزید فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ قومی قیادت کو چاہئے کہ عوام کی بھرپور شرکت سے نیشنل ایکشن پلان کی کمزوریوں کا جائزہ لے کر اس پرعملدرآمد کو مزید مؤثر بنایا جائے۔

تازہ ترین