• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پیپلز پارٹی سندھ سے کارکن رہنما سینیٹر سعید غنی کے لئے صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں کامیابی کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے۔ سعید غنی ایم کیو ایم کے امیدوار کو انتخابی شکست دے کر صوبے کی اسمبلی کے حقدار قرار پائے، ایم کیو ایم کے ساتھ انتخابی مقابلہ پورے ملک کی توجہ کا مرکز رہا، بلاشبہ ایم کیو ایم (فاروق ستار گروپ) نے بھاری ووٹ لئے اور سعید غنی کی جیت کا مارجن امکانی فتح کے کنارے کنارے چلتا رہا۔ بہرحال ان کی یہ کامیابی ان کے سیاسی سفر کا ایک اور فیصلہ کن ارتقائی سنگ میل ہے!۔ہم سینیٹر سعید غنی کے انتخاب اور شخصیت کے حوالے سے ایک جامع سی گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان سینیٹ میں اپنی الوداعی شرکت کے موقع پر سعید غنی کا خطاب انسانی زندگی کے نشیب و فراز کے تناظر میں احساس کے پُر مسرت اور پُر اطمینان اشکوں کا ناقابل فراموش اثاثہ ہے۔ اپنے الوداعی خطاب میں سینیٹر اپنے آبائو اجداد کی غربت کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدگی کے انسانیت نوا اور انسانیت خیز پھولوں کی خوشبو بکھیرتے رہے۔ تشکر آمیز اشکوں سے بھری آنکھوں کو وہ اپنا اظہاریہ روک کر خشک کر لیتے، اگلے ہی لمحے آنسوئوں سے سرشار مہک پھر پھیلنا شروع ہو جاتی، سینیٹر سعید غنی اپنے ساتھی سینیٹرز سے کہہ رہے تھے۔ ’’میرا تعلق ایک انتہائی غریب خاندان سے تھا، مزدور باپ دادا کے بیٹے کا سینیٹ میں پہنچنا اعزاز ہے۔ ساڑھے پانچ سال سینیٹ میں اپنی خدمات سرانجام دی ہیں، اگر کسی سینیٹر یا چیئرمین یا سینیٹ کے افسران و ملازمین کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہوں، میں نے ہمیشہ جمہوریت کی بلندی او رسینیٹ کی توقیر میں اضافے کی کوشش کی ہے، اپنی پارٹی کا نقطہ نظر پیش کرنا میری ذمہ داری تھی، میڈیا کا شکریہ ادا کرتا ہوں، میڈیا کی وجہ سے میر ی شناخت ملک سے نکل کر دنیا میں بھی ہوئی، میں ایک بہت غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہوں، میرے دادا مزدوری کرتے تھے، بڑی مشکل سے میرے والد کو انہوں نے تعلیم دلائی، تعلیم کے حصول کے دوران بھی میرے والد مزدوری کرتے تھے، میٹرک کی فیس جمع کرانے کا وقت آیا تو میری دادی نے اپنے کپڑے اور چھوٹی چھوٹی چیزیں بیچ دیں، میرے والد نے گریجویشن کے بعد ماسٹرز کیا، بینک کی ملازمت کی اور پھر ٹریڈ یونین کا حصہ بن گئے۔ ہم نے اپنی اوقات کبھی نہیں بھولی، میرے والد کا قول تھا کہ اپنے محسن کو کبھی نہ بھولو، میرے والد کو جب بینک میں ملازمت ملی تو سیکورٹی ڈیپازٹ جمع کرانے کے لئے 100روپے بھی نہ تھے۔ وہ انہوں نے ایک پڑوسی سے لے کر جمع کرائے، زندگی میں مجھے پیسے کی بہت پیشکش ہوئی لیکن میرے والد کی باتیں میرے پیروں کی زنجیریں اور ہاتھ کی ہتھکڑیاں ہیں، میں نے اپنے والد کی عزت کی لاج آج تک رکھی ہوئی ہے‘‘۔ چیئرمین سینیٹ نے ایسے تاریخی ماحول میں اپنی فیصلہ ساز رائے دی، ان کا کہنا تھا ’’سینیٹر سعید غنی نے ایوان بالا میں ایک فعال سینیٹر کی حیثیت سے کردار ادا کیا وہ ایک عظیم والد کے بیٹے ہیں، امید ہے سندھ اسمبلی میں بھی وہ وفاق کی طرح نمائندگی کریں گے۔
چیئرمین سینیٹ سمیت تمام پاکستانی عوام یہی یقین رکھیں ’’وہ سندھ اسمبلی میں بھی وفاق کی طرح نمائندگی کریں گے‘‘ کیوں؟ اس لئے کہ سعید غنی صاحب کردار ہے، دادی، ابا، اماں، پاکستان کی دھرتی، یہاں کے ہزاروں لوگ، نظریات کی آب حیات، پیپلز پارٹی کے آدرش، ضمیر کا اطمینان، شعور کی گواہی، ارے میاں! دیکھو تو سہی قدرت نے سینیٹر نہیں، اب اجنبی کو کتنے اور کیسے خزانوں سے نوازا اور ان کا ایک آنسو ملک و قوم کی فضائوں سے برستی دعائوں کا ثمر ہے، چنانچہ رضا ربانی کی توقع اور پاکستانیوں کا یقین دونوں فطری ہیں!
اِدھر پنجاب پیپلز پارٹی لاہور میں ایک جواں سال بیرسٹر عامر حسن، اپنے ذاتی پس منظر میں ایسے ہی محنت کش ماحول میں ابھرا، لاہور میں عامر حسن نے پارٹی قیادت کے کہنے پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا، وہ جدوجہد اس کا اعزاز ہے، انداز سیاست میں عام آدمی اور دھرتی سے جڑت ہر کسی کی گواہی لے کر مصدقہ ہوتی جا رہی ہے، ٹی وی ٹاک شوز میں وہ پیپلز پارٹی اور اس کی نظریاتی جہت کے دفاع میں ایک پیداواری کارکن رہنما ثابت ہو رہا ہے، کیا وہ پنجاب کا سینیٹر سعید غنی ہے؟ یعنی ایسا کارکن رہنما، سیاسی جدوجہد ہی جن کا سرمایہ حیات ہوتی ہے اور بالآخر سیاسی سرفرازی!
بنام وزیر اعلیٰ پنجاب
مکرمی! ایک نہایت ہی دلدوز درخواست برائے عملدرآمد آپ کی خدمت والاتبار میں پیش کی جا رہی ہے، آپ کی روایات کے عین مطابق قانونی میرٹ پر اس کے فیصلے کی امید رکھتے ہیں۔ تجزیہ کار اور کالم نگار نے 19؍ جولائی 2017کو ایک واقعہ رپورٹ کیا، براہ کرم پہلے اس وقوعہ کا مطالعہ فرما لیں جس کے نتیجے میں خاکسار کی جانب سے اس دلدوز درخواست نے جنم لیا ہے۔ ایک کالم نگار کا لکھنا ہے:معاملہ کچھ اس طرح ہے کہ چند ہفتے پہلے سرگودھا کی ایک تحصیل کوٹ مومن کی اسسٹنٹ کمشنر نے اپنی قوت و جبروت کے اظہار کے لئے مقامی سرکاری کالج کو منتخب کیا اپنے چند ایک سرکاری قسم کے حواریوں کے ساتھ ان کے دھاوے کی ابتدا پرنسپل کے دفتر سے ہوئی جہاں جا کر وہ اس کی کرسی پر بیٹھ گئیں اور سینئر اساتذہ کو اپنے سامنے حاضر ہونے کا حکم دیا جہاں اساتذہ ہاتھ باندھ کر اس تازہ وارد ڈی ایم جی افسر کی شان بڑھانے کے لئے حاضر ہوئے تو اس خاتون کی زبان درازیوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ آخر ایک استاد نے کہا کہ ایک تو آپ کے بیان کردہ حقائق درست نہیں اور دوسرے یہ کہ آپ نے پرنسپل کی کرسی پر بیٹھ کر اچھا نہیں کیا۔ انہوں نے ایک استاد کی اس بات کو ریاست کے خلاف بغاوت سمجھا اور متعلقہ استاد کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔‘‘
جناب والا! اپنی درخواست میں خاکسار آپ کو ’’پاکستان کے مقاصد‘‘ اور ’’آئین و قانون‘‘ کے موضوع پر بور نہیں کرنا چاہتا اور ’’ریاستی اہلکار اور کوئی بھی فرد جو ان کے قابو آ جائے نہ اس پہ کچھ منوانے یا جاننے کا خواہش مند ہے (اس کے لئے حال ہی میں اسلام آباد ایئر پورٹ پر ایف آئی اے کے اہلکاروں کے ہاتھوں ایک بچی کی چیخیں آئندہ آدھی صدی کے احساس توہین کا کافی سامان ہے) آپ سے چونکہ ’’ایکشن‘‘ کا یقین ہے، اس لئے اپنے منصب اور روایت کے حوالے سے اس اسسٹنٹ کمشنر سے باوساطت علاقہ کمشنر یا چیف سیکرٹری پنجاب صرف ایک مطلوب وضاحت(EXPLANATION)کے کٹہرے میں کھڑا کر دیں، وہ آپ کو بتائے، مملکت خداداد پاکستان کے آئین 73کے اندر موجود قانونی ڈھانچہ میں کس قانون کے تحت ایک اسسٹنٹ کمشنر کسی اقدام کے لئے ایک کالج کی حدود میں داخل ہونے کا مجاز ہے؟ اور اگر کوئی ہنگامی صورتحال اسے کسی قانون کا سمجھا دیتی ہے، وہ آپ کی خدمت میں اس قانون کی نشاندہی کرے؟
-oکس قانون کے تحت اسے پرنسپل کے کمرے میں داخل ہونے اور ان کی کرسی پر براجمان ہونے کا قانونی استحقاق تھا؟
-oاور کس قانون کے تحت اس نے متعلقہ پروفیسر کی گرفتاری کا حکم دیا؟
جناب والا! اگر 1973کے ملکی آئین کے دائرے میں دستیاب قانونی ڈھانچہ یہ قانونی اختیار نہیں دیتا، تب جناب والا ! کم از کم اس درجہ لاپروائی سے علم اور استاد کی حد درجہ تذلیل پر قانونی عمل سے گزارا جائے علم اور استاد کی تھوڑی سی قدر و عزت رہ جائے گی!

تازہ ترین