• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بدھ کے روز سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں مختلف جرائم کے مقدمات اور محکمہ جاتی کارروائیوں میں ملوث پولیس اہلکاروں و افسران کےخلاف کارروائی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔جس میں ایڈیشنل آئی جی کائونٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ کی سربراہی میں ہونیوالی تفتیش کی انکوائری رپورٹ پیش کی گئی جس میں بتایاگیا ہے کہ سندھ پولیس کے بارہ ہزار اہلکاروں کا ریکارڈ مشکوک ہے۔مشتبہ ریکارڈ کے حامل یہ افراد چوری و ڈکیتی کی مختلف وارداتوں میں ملوث ہیں۔حقیقت حال یہ ہے کہ یہ معاملہ محض سندھ تک محدود نہیں ہےدیگر صوبوں کے محکمہ پولیس میں بھی ایسے اہلکار اور افسران موجود ہو سکتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق لاہور میں 41، ملتان میں 19،کراچی میں103، وفاقی دارالحکومت میں 14اور دیگر شہروں میں بھی درجنوں قتل اور چوری و ڈکیتی کے واقعات میں پولیس اہلکار ملوث بتائے گئے ہیں۔ملک سے دہشت گردی کے خاتمے ، جرائم کی روک تھام اور امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے پولیس کا کردار غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے، مگر یہ محکمہ حد درجہ بے اعتنائی کا شکار ہو چکا ہے۔ 2002ء میں ملک بھر میں پولیس اصلاحات نافذ کی گئی تھیں جن میں پولیس کو آزادی سے اپنے فرائض بجا لانے کی اجازت دی گئی تھی، مگر اِس آزادی کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔منظم گروہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے محکمہ پولیس میں اپنے آدمیوں کو بھرتی کرواتے ہیںیہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کیخلاف چودہ ملٹری آپریشنزکے بعد بھی ملک میں امن قائم نہیں ہو رہا۔جب قانون پر عملدرآمد کو یقینی بنانے اور عوام کے جان و مال کی حفاظت کرنے والے محافظ ہی گھنائونے کاموں میں ملوث ہوں گے تو عوام کا کیا بنے گا۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ اسکریننگ کے ذریعے محکمہ پولیس میں موجود ایسے اہلکاروں کی نشاندہی کی جائے اور تحقیقات کے بعد ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔بھرتیوں کے وقت دیگر سیکورٹی اداروں کی طرح میرٹ کو یقینی بنایا جائے اور بھرتی ہونیوالے ہر اہلکارکی مکمل چھان بین کی جائےتاکہ عوام کا پولیس پر اعتماد بحال ہو سکے اور ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنائی جا سکے۔

تازہ ترین