• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج ہم ناراض لوگوں کو قومی دھارے میں لانے کی بات کرتے ہیں، تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہم نے گزرے ہوئے کل میں بہت سے ایسے لوگ قومی دھارے سے اٹھا کر باہر پٹخ دیئے جو ہماری قومی طاقت کا باعث ہوسکتے تھے۔ ہم نے اپنی گود میں سندھی ، پنجابی، بلوچی، پختون اورمہاجر پالے اور عام پاکستانی کو لاوارث چھوڑ دیا۔ملک میں اس وقت جو ماحول چل رہا ہے اس میں صاف نظر آرہا ہے کہ مسئلہ کرپشن نہیں بلکہ نواز شریف، ان کا خاندان اور ن لیگ ہے۔ پاناما کے فیصلے نے نواز شریف کو بظاہر بند گلی کا مسافر بنا دیا ہے، ان کے پاس کوئی راستہ نہیں اور جب کوئی راستہ نہ ملے تو راہی یا تو اپنی موت آپ مر جاتا ہے یا پھر ’’مر تو ویسے ہی گئے ہیں‘‘ کے مصداق کوئی ایسا راستہ اختیار کرتاہے جس کے خوفناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ نوازشریف کے بعد نو منتخب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے سرپر بھی نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے، پھر شہباز شریف کو بھی گھر بھیجنے کی تیاری بارے سوالات گردش کررہے ہیں۔ باسٹھ تریسٹھ کے جس پیمانے پر نواز شریف کو گھر بھیجا گیا ہے اس پر تو پھر کوئی نہیں بچے گا تو ایسے میں باقی لوگ دندناتے کیوں پھر رہے ہیں۔ چور ڈاکوئوں کونرغے میں ضرور لائیں مگر ’’اچھا چور‘‘ اور ’’برا چور‘‘ میں تمیز ختم نہ کی گئی تو حالات ایسے بگڑیں گے کہ سنبھل نہیں پائیں گے، کچھ بین الاقوامی قوتیں بھی یہی چاہتی ہیں۔ عدلیہ ،اسٹیبلشمنٹ ،سیاسی ادارے اور سول بیورو کریسی، سب کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوں گے۔ خیال رکھنا ہوگا کہ ہمارے قدم کہیں شام، یمن، عراق اور افغانستان کی طرف نہ اٹھ جائیں جہاں دنیا کی متفرق طاقتیں ہماری اینٹ سے اینٹ بجاتی پھریں اور ہم اپنا سب کچھ گنوا بیٹھیں۔ نواز شریف کے نام پر ان کی جماعت کو گزشتہ انتخابات میں جو ووٹ حاصل ہوئے ان سے مبینہ دھاندلی کے ووٹ نکال بھی دیئے جائیں تو جو ووٹ بینک باقی بچتا ہے وہ ایک اٹل حقیقت ہے۔ نواز شریف کے پیچھے عوام ہیں۔ عدالتی فیصلے کے بعد ن لیگ کا فیصلہ یہ ہے کہ اب فیصلہ عوام کی عدالت کرے گی۔ یہ وہی ملک ہے جہاں سینکڑوں لوگوں کے قاتل دندناتے پھر رہے ہیں، جہاں ایک ڈکٹیٹر اپنے ذاتی مفادات کی خاطر چوری، ڈکیتی، قتل اور کرپشن کے داغ دھونے کی لانڈری لگاتا ہے اور ایک این آر او کے ذریعے سب داغ دھو ڈالتا ہے۔
یہ وہی ملک ہے جہاں قتل کے الزام میں وقت کے وزیراعظم کو عدالت پھانسی دے دیتی ہے اور دوسرے وزیراعظم کو گھر بھیج دیتی ہے۔ افسوس کہ یہ سب وہی سیاست دان ہیں جو کبھی چھڑی کے وار سہہ رہے ہوتے ہیں تو کبھی گاجریں کھا رہے ہوتے ہیں۔ ان میں سو طرح کی خامیاں ہیں مگر ضرورت ان خامیوں کو ختم کرنے کی ہے نہ کہ ناپسندیدہ چہروں کو دیوار سے لگا کر پسندیدہ چہروں کو مسند اقتدار سونپنے کی۔ لوگ کہتے ہیں نواز شریف گیا ایک تنکا بھی نہیں ہلا یعنی نواز شریف کے پاس عوامی قوت نہیں ہے جو شاید خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔کچھ مفادات کے شکار سیاسی و غیر سیاسی ناکام عناصر ملک میں انتشار و افتراق چاہتے ہیں جس کو بنیاد بنا کر ایک مرتبہ پھر گاجر اور چھڑی کا کھیل کھیلا جائے گا، مختلف جماعتوں سے لوٹے چنے جائیں گے، ایک نئی ق لیگ بنائی جائے گی، اگر کرپشن کسی پر بھی ثابت ہوتی ہے تو اُلٹا لٹکا دیا جائے مگر ن لیگ کو بند گلی میں نہ دھکیلا جائے ۔ ملکی حالات کا رخ جس تیزی سے تباہی کی طرف جارہا ہے کبھی سوچا نہ تھا کہ تباہی اتنی تیزی سے ہمارے سامنے کھڑی ہوگی۔
عقل سے عاری حکمران دلیل سے خالی سیاست دان حالات کی نزاکت کو سمجھنے اور نوشتہ دیوار پڑھنے کو تیار نہیں اب ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالو مہم کی نئی سیریز مارکیٹ میں آگئی ہے کردار کشی کی یہ مہم سچی ہے یا جھوٹی فیصلہ تو آنے والے دنوں میں ثبوتوں کی بنیاد پر ہوگا لیکن اس کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں اور بڑے بڑے نامور سیاست دانوں کی عزتیں پامال ہونے کا خدشہ بعید از قیاس نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عیبوں کی پردہ پوشی کا حکم دیا ہے مگر شاید دلیل سے خالی ہمارے سیاست دان اپنی سیاست کے کپڑے بیچ چوراہے دھونے پر تلے ہیں، انہیں نہیں معلوم کہ کپڑوں کے گندے چھینٹے ان کے ساتھ ساتھ جمہوریت کو بھی داغ دار کر دیں گے۔ رحمٰن ملک صاحب نے ایک نیا انکشاف کر دیا ہے کہ ایک سیاسی جماعت نے برطانیہ اور یورپ میں جاسوس ایجنسیوں کی خدمات حاصل کررکھی ہیں۔ مقتدر ذرائع اطلاعات دے رہے ہیں کہ 1300 افراد کی فہرست تیار ہے۔700 کے قریب زیر غور ہیں جن کا کڑا احتساب ہونے والا ہے۔ معتبر ترین جمہوریت پسند قابل صد احترام چیئرمین سینیٹ رضا ربانی صاحب آنے والی تباہی کی دہائی دے رہے ہیں۔ ان کا درد بڑا واضح ہے۔ وہ کہتے ہیں آرٹیکل 58۔ٹو بی کی جگہ آرٹیکل 63,62 آگیا ہے۔ اب حکمرانوں کی تقدیر کے فیصلے اس کے تحت ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے ایگزیکٹو، عدلیہ اورملٹری بیورو کریسی کے درمیان انٹر ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ وہ دہائی دے رہے ہیں کہ آئین کے تحت ریاست کی اولین ترجیح شہریوں کے جان و مال کا تحفظ ہے۔ ملک اور وفاق خطرناک نہج پر آکھڑے ہیں۔ ایسے میں اداروںکے درمیان کھینچا تانی ، ایک دوسرے پر حاوی ہونے کی کوشش بھیانک نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ انہوں نے سینیٹ کے پلیٹ فارم پر انتظامیہ، عدلیہ ، دیگر اداروں کو دعوت دی ہے کہ آئیں بیٹھیں بات کریں۔ دوسری طرف سراج الحق صاحب فرماتے ہیں کہ اگر کسی حکمران یا سیاسی جماعت نے پارلیمنٹ کے ذریعے آرٹیکل 63,62 کو ختم کرنے کی کوشش کی تو وہ خود ختم ہو جائے گی۔ سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف بھی کہتے ہیں کہ ڈکٹیٹروں نے ملک ٹھیک کیا، سویلینز نے بیڑا غرق کر دیا۔ حالات کا منظر نامہ سامنے ہے سیاسی قوتیں باہم دست و گریباں ہیں۔ عزتیں اچھالی جارہی ہیں آنے والے دنوں میں اوراچھالی جائیں گی۔ آرٹیکل 63,62 سے خوف زدہ حکمران اور سیاست دان اپنی بقا کی جنگ میں ملکی بقا ، عوامی فلاح و بہبود بھو ل چکے ہیں۔ یہ سیاسی کشمکش آنے والے دنوں میں مزید بڑھتی جائے گی۔ جمہوریت کو خطرہ کسی فوجی ڈکٹیٹر سے نہیں خود سیاست دان خودکشی کرنے چلے ہیں سر سے پانی گزرچکا ۔ بدھ کے روز جمہوریت کا لُٹا پُٹا ایک قافلہ اسلام آباد سے لاہور روانہ ہوگا جس کی منزل کا کسی کو کچھ پتہ نہیں اور نہ جانے کتنے جمہوریت کے زخم خوردہ قافلے روانہ ہوں گے۔ حالات احتیاط ، تدبر، صبر، دانش مندی کے متقاضی ہیں، آرٹیکل 63,62 ختم کرنے سے جمہوریت نہیں چند لوگ محفوظ ہوں گے۔ نظام حکومت بہتر ہوگا نہ عوام کی تقدیر بدلے گی۔ جو ٹھیک کرنے کی چیز ہے وہ ہے ہماری نیت۔ نیت بر مراد، ورنہ آج نہیں تو کل انجام تو سامنے نظر آتا ہے۔

تازہ ترین