• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرا یہ پرانا کالج فیلو طویل عرصے سے واشنگٹن میں رہتا ہے۔ بنیادی طور پر وہ سیاسیات (Political Science)کا طالبعلم ہے اور بین الاقوامی سیاست اس کی درس و تدریس اور تحقیق کا محور ہے۔ اب وہ کچھ عرصہ سے وہاں ایک یونیورسٹی میں بین الاقوامی سیاست پڑھا رہا ہے۔اس حوالے سے اس کا واشنگٹن کے تھنک ٹینکس میں بھی آنا جانا رہتا ہے اور صدارتی مشیروں سے بھی رابطہ رہتا ہے۔ کل ایک مشترکہ بزرگ کے گھر اس سے ملاقات ہوئی تو صدر ٹرمپ کی تقریر موضوع گفتگو بن گئی کیونکہ صدر ٹرمپ کی تقریر نے جہاں حکومت پاکستان کو جھٹکا دیا ہے وہاں پاکستانی قوم کو بھی اندیشوں میں مبتلا کردیا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ پاکستانی قوم اندیشوں سے خاصی حد تک(Immune)لاپروا اور سرد مہر ہوچکی ہے کیونکہ خدشات اور خطرات پاکستانی قوم کی گھٹی میں شامل ہیں۔ روز اول سے ہندوستان کے حوالے سے خطرات، 1980 کی دہائی میں روسی خوف کے منڈلاتے بادل اور پھر افغانستان کے حوالے سے دہشت گردی اور ہندوستانی تخریب کاری کے خطرات ہمارے قومی مقدر کا حصہ رہے ہیں۔ اس لئے پاکستانی قوم خطرات کے سایے میں پل کر جوان ہوئی ہے۔ صدر ٹرمپ جیسی بیرونی دھمکیوں کے خلاف احتجاج، جلسے جلوس، سیاستدانوں کے بیانات اور قومی یا کل پارٹی کانفرنس ہماری روایات ہیں جو پانی کے بلبلے کی مانند ابھرتی اور غائب ہوجاتی ہیں۔ اس سے بیرونی طاقتوں کا کچھ بگڑتا ہے نہ اندرونی اتحاد حاصل ہوتا ہے، البتہ پاکستان کی پارلیمنٹ کے سارے اراکین امریکن سفارت خانے کے سامنے احتجاجی دھرنا دیں تو اس سے ٹرمپ جیسے منہ پھٹ اور لاپروا شخص کی صحت پر تو کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن یہ بین الاقوامی میڈیا کے لئے ایک اہم خبر بن جائے گی جس کے کئی فائدے ہوں گے۔ اول دنیا بھر میں ہمارا احتجاج رجسٹر ہوجائے گا۔ دوم ٹرمپ انتظامیہ اس کا نوٹس لے گی اور اپنے رویے پر نظر ثانی پر مجبور ہوگی، سوم جب ہمارے اراکین پارلیمنٹ عالمی میڈیا کو متفقہ طور پر زور دے کر بتائیں گے کہ پاکستان میںدہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہیں نہیں۔ ہم دہشت گردی کی جنگ میں ستر ہزار قیمتی جانیں اور اربوں ڈالر گنوا چکے ہیں۔ ہماری فوج نے پاکستان کی سر زمین کو دہشت گردوں سے پاک کرلیا ہے۔ مزید یہ کہ دہشت گردوں اور داعش کو پاکستان میں پناہ گاہوں کی ضرورت نہیں کیونکہ افغانستان کے تقریباً پچاس فیصد علاقوں پر طالبان اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کا قبضہ ہے جہاں حکومت افغانستان کی رٹ موجود ہی نہیں۔ جب ان کے کھل کھیلنے کے لئے افغانستان کی سرزمین موجود ہے تو انہیں پاکستان میں سر چھپانے کی کیا ضرورت ہے؟آخری بات یہ کہ ہم عالمی میڈیا کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ پاکستان کے کونے کونے میں جائیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ ہم اپنی سرزمین دہشت گردوں سے پاک کرو اچکے ہیں۔ وہ امریکی حکومت سے پوچھیں کہ پاکستان نے کہاں دہشت گردوں اور حقانی نیٹ ورکس کو ٹھکانے دے رکھے ہیں؟ان علاقوں کے بھی دورے کریں اور امریکی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ عالمی رائے عامہ کو بھی اس الزام کی حقیقت سے آگاہ کریں۔ اراکین پارلیمنٹ کے موثر احتجاج سے امریکی انتظامیہ اپنے رویے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوگی لیکن میرے نزدیک اس کا سب سے بڑا فائدہ عالمی رائے عامہ پر مثبت اثرات اور عالمی میڈیا کے رویے میں تبدیلی کی صورت میں رونما ہوگا۔ کم سے کم پاکستانی نقطہ نظر کو اہمیت ملے گی جو آج تک حکومتی بیانات کو حاصل نہیں ہوسکی۔ ہمارے حکمران، سیاستدان، دانشور اور تجزیہ مسلسل ایک ہی بات کہتے چلے جاتے ہیں کہ امریکہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ ہم پر ڈالنا چاہتا ہے۔یہ بے معنی اور بے وقعت بات ہے جس کا اثر امریکی انتظامیہ پر ہوتا ہے نہ ہی عالمی میڈیا اسے درخور اعتنا سمجھتا ہے۔ ہمیں ٹرمپ کے الزامات کا جواب منطقی انداز اور دلائل سےدینا ہے نہ کہ الزامات سے۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ ٹرمپ نے اپنے پالیسی بیان میں اس حقیقت کا ذکر نہیں کیا کہ افغان حکومت کا کنٹرول چالیس یا پچاس فیصد سے زیادہ علاقوں پر نہیں ہے، اگر وہ اس کا ذکر کرتا تو امریکی عوام پوچھتے کہ امریکہ کو اربوں ڈالر خرچ کرنے اور سینکڑوں فوجی مروانے کے بعد کیا حاصل ہوا؟ ایک دہائی کی جنگ میں امریکہ افغان سرزمین کو طالبان اور داعش سے بھی صاف نہیں کرواسکا تو مستقبل میں کون سا تیر چلا لے گا؟
میں اپنی بات لے بیٹھا، ذکر ہورہا تھا اس پروفیسر دوست کا جو واشنگٹن میں پڑھاتا، تھنک ٹینکس میں شرکت کرتا اور امریکی انتظامیہ کی سوچ کا ادراک رکھتا ہے۔ اس نے ٹرمپ کی انتخابی مہم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ نے افغانستان سے نکلنے کا عندیہ دیا تھا کیونکہ ٹرمپ کے ایجنڈے کا بنیادی نکتہ معاشی خوشحالی اور بے روزگاری میں کمی تھا جس کے لئے بیرونی خساروں پر قابو پانا اور اسلحہ بیچ کر امریکہ کے لئے اربوں ڈالر کمانا تھا۔ اس تقریر سے پہلے صدر کے مشیروں نے اسے تفصیلی بریفنگ دی اور صدر ٹرمپ کو افغانستان کے قدرتی وسائل، تابنے، چاندی، سونے، گیس و تیل وغیرہ کے وسیع ذخائر سے مطلع کیا۔ یہ تفصیل سن کر ٹرمپ کی رال ٹپک پڑی اور اس نے امریکی فوج کی واپسی کی بجائے فوج بڑھانے ا ور جنگ تیز کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ٹرمپ فیصلہ کن جنگ لڑ کر ان وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور عرق کی مانند سارا خسارہ پورا کرنے کے علاوہ امریکہ کے لئے دولت کمانا چاہتا ہے۔ ہندوستان کی امریکہ میں طاقتور لابی اور افغان حکومت امریکی عزائم اور امن کی راہ میں پاکستان کو رکاوٹ قرار دیتی ہے اور دہشت گردوں کو پناہ گاہیں دینے کا الزام دیتی ہے۔ خود امریکی خفیہ ذرائع اور فوجی مشیران بھی یہی سمجھتے ہیں۔ ان کے پاس ان ٹھکانوں کی تفصیلات بھی موجود ہیں اور نقشے بھی۔ ٹرمپ کی موجودہ دھمکی کا مقصد پاکستان پر دبائو ڈالنا ہے تاکہ وہ خود ان ٹھکانوں کو ختم کرے لیکن اگر حکومت پاکستان نے ایسا نہ کیا تو امریکہ یہ اقدامات کرے گا۔ (ا)امداد کی بندش(2)آئی ایم ایف ا ور دوسرے مالیاتی اداروں کے ذریعے دبائو(3)دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ڈرون حملے اور سرجیکل اسٹرائیک۔ جس طرح عراق پر حملے کے لئے امریکہ نے جواز پیدا کیا تھا اسی طرح وہ پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کے لئے جواز پیدا کرے گا لیکن امریکہ کی اولین کوشش ہوگی کہ افغانستان میں طالبان اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں پاکستان کو اپنا اتحادی (Ally)بنائے۔ امریکہ پاکستان پر معاشی کڑی پابندیاں عائد کرے گا نہ ہندوستانی خواہش کے مطابق پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دے گا۔ کچھ تنظیموں، افراد کو دہشت گرد قرار دیا جاسکتا ہے۔ ابھی ہماری گفتگو جاری تھی کہ ہمارے مشترکہ بزرگ نے قطع کلام کرتے ہوئے کہا ’’تم زمینی باتیں کررہے ہو، کچھ فیصلے آسمانوں کے بھی ہوتے ہیں۔ میری بات نوٹ کرلو کہ کچھ پاکستان کے ’’لوٹ مار یافتہ‘‘ سیاستدان سیاسی میدان سے غائب ہوجائیں گے اور نسل پرست کم فہم صدر ٹرمپ مواخذے کا شکار ہو کر صدارتی میعاد پوری نہیں کرسکے گا۔ اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان محفوظ ہے اور محفوظ رہے گا‘‘۔اس کے بعد ہمیں چپ سی لگ گئی۔

تازہ ترین