• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی فطرت کا یہ ایک المیہ ہے کہ جب اسے ناکامی سامنے نظر آتی ہے اس کے غیر فطری خواب چکنا چور ہونے لگتے ہیں تو وہ مایوسی کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ ایسی دلدل جس سے نکلنا ناممکن ہو اس کا انجام پہلے سے بھی بڑے نقصان کی شکل میں بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوتا دوسری طرف انسانی فطرت کا ایک خوب صورت پہلو یہ بھی ہے کہ جو انسان ناکامی کے ماحول میں مایوسی کی بجائے ہمت، حوصلہ، تدبر برقرار رکھتا ہے وہ کامیابیاں سمیٹتا ہے۔ اسے دنیا خوب صورت نظر آنے لگتی ہے یہی انسانی فطرت قوموں کے عروج و زوال کا باعث بھی بنتی ہے اور یہ کردار قومی رہنما ادا کرتے ہیں اور حالات کے مطابق اعلیٰ ترین اور بدترین فیصلوں پر عمل حکمراںکرتے ہیں۔ آج دنیا کو فتح کرنے کا خواب دیکھنے والے افغانستان کی فتح کا خواب چکنا چور ہوتا دیکھ کر مایوسی کا شکار ہیں۔ وہ ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں کہ کہیں سے انہیں اس عذاب سے جان چھڑانے کا موقع مل جائے۔ میری مراد واشنگٹن کے ’’ گورے صاحب‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ سے ہے جن کا بغل بچہ ’’کالا صاحب‘‘ مودی ہے۔ شاید یہ دو صاحبان کالے، گورے کے امتزاج سے دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھنے چلے ہیں لیکن نتائج اس کے بالکل برعکس برآمد ہورہے ہیں۔ ’’گورے صاحب‘‘ کی نئی نئی لاٹری لگی ہے ’’کالے صاحب‘‘ کی شاطرانہ چالیں انہیں خوش فہمی کا شکار کئے ہوئے ہیں۔ انہیں اس بات کا اندازہ نہیں دنیا بدل چکی، حکمرانی کے تقاضے تبدیل ہو چکے۔ ہر آزاد خود مختار ملک کسی دوسرے کی غلامی یا اثر و رسوخ میں نہیں رہنا چاہتا اور اپنی نظریاتی، جغرافیائی سرحدوں کا دفاع کرنا وہ خوب جانتا ہے۔ آزاد معیشت اس کی بنیاد ہے اب وہ زمانہ نہیں کہ کوئلے کی دلالی میں ہاتھ کالا کیا جائے۔ ماضی میں ملکوں کو فتح کرنے کے منصوبے، معاشی غلامی میں جکڑنے کی چالیں، نظریاتی جڑیں کھوکھلی کرنے کی سازشیں، لسانی مذہبی بنیادوں پر قوموں کو تقسیم کرنے کے ناپاک منصوبے اور دہشت گردی کی آڑ میں لڑی جانے والی جنگیں اب کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ دنیا کو فتح کرنے کا آج صرف ایک ہی فارمولا ہے ’’جیو، جینے دو، اپنی حدود میں رہو، ہماری حدود میں آئو گے تو مارے جائو گے‘‘۔
ہمارے نام واشنگٹن سے بذریعہ نئی دہلی جو ’’چٹھی‘‘ آئی ہے یہ کوئی نئی بات نہیں۔الحمدللہ ہم ماضی میں بھی ان دھمکیوں اور پابندیوں کا سامنا کر چکے ہیں۔دنیا کی پانچویں ایٹمی قوت ہیں، چین کے تعاون سے سی پیک کی شکل میں معاشی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہیں اور اس شاہراہ کے راستے خطے کے ممالک خصوصاً اور پوری دنیا کو عموماً خوش حالی اور دیر پا امن ملتا نظر آرہا ہے۔ واشنگٹن میں بیٹھے ’’ گورے صاحب‘‘ جنہیں محض جمعہ جمعہ چار دن پہلے اقتدار ملا ہے اپنی ناتجربہ کاری کے باعث دنیا کو ایٹمی جنگ کی آگ میں جھونک کر اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں اور بھارت کو اسی جنگ کے مرکزی مہرے کے طور پر سامنے لا کر اپنی بربادی کے پروگرام پر دستخط کر رہے ہیں جس کا دنیا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ ’’ گورے صاحب‘‘ سے سوال یہ ہے کہ کیا بھارت اتنی بڑی سپر پاور بن چکا ہے کہ وہ چین کے مقابلے میں خطے میں اپنی چوہدراہٹ قائم رکھ سکے۔ یہ خواب دیوانے کی بڑسے زیادہ کچھ نہیں۔ ذرا آنکھیں کھول کر دیکھئے افغانستان میں حقیقی دیرپا امن و سکون کون لا سکتا ہے؟ پاکستان یا بھارت؟ بھروسہ کس پر کیا جا سکتا ہے؟ پاکستان پر جس نے افغان جہاد کی شکل میں امریکہ کی مدد سے روس جیسی سپر پاور کو ناکوں چنے چبوا دیئے یہ وہی افغانستان ہے جس کے حکمراں ہمیشہ سے روس اور بھارت کے زیر اثر رہے اور عوام پاکستان کے ساتھ۔ ماضی میں افغانستان میں شکست کس کو ہوئی روس اور بھارت کو، فتح سے ہمکنار کون ہواافغان عوام، امریکہ اور پاکستان۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ’’ گورے صاحب ‘‘ جن کی اپنے ملک اور دنیا بھر میں حمایت کا گراف تیزی سے نیچے آ رہا ہے جس کے اپنے انتظامی امور کے کلیدی کردار اسے آئے دن چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ جو اپنے انتخابی وعدوں سے مکر گیا اس کی مایوسی کی انتہا کیا ہو گی اوروہ تدبر کی بجائے غصے اور نفرت سے فیصلے کرنے پر مجبور ہے۔ پاکستان کو دھمکیاں دی جارہی ہیں اور جناب چلے ہیں بھارت کے ذریعے افغانستان کو فتح کرنے اور سہارا جس ’’کالے صاحب‘‘ کا لیا جارہا ہے وہ خود مسلمانوں، عیسائیوں اور نچلی ذات کے ہندوئوں جس سے وہ خود تعلق رکھتا ہے کا قاتل ہے، اس کی فطرت میں انتہا پسندی اور شدت پسندی شامل ہے جو خود تعصب کا مارا ہے جس کا اپنا سیاسی مستقبل دائو پر لگا ہوا ہے جس کے ہاتھ سے نیپال، سری لنکا، بنگلہ دیش، مالدیپ نکل رہے ہیں۔ وہ جنوبی ایشیاکا بے تاج بادشاہ کیسے بن سکتا ہے۔ یہ تمام ممالک بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی وجہ سے براہ راست چین کے زیر اثر جا رہے ہیں۔ اور ان کی امیدیں اب ’’گورے صاحب سے ہیں نہ ’’کالے صاحب ‘‘ سے۔ پاکستان سمیت دنیا کے تمام ممالک افغانستان میں جنگ کی بجائے دیرپا امن اور خوش حالی کے مستقل کےخواہاں ہیں۔ گورے صاحب آپ مایوس انسان کی فطرت کی انتہا کو چھوتے ہوئے افغانستان میں اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے کی بجائے سارا ملبہ پاکستان پر ڈال کر اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں جس کا انجام بھیانک نکلے گا۔ دنیا خصوصاً جنوبی ایشیا کو آگ اور خون کے سمندر میں غرق کرنے سے پہلے ہزار بار سوچیں کہ کسی کے گھر میں لگی آگ کل آپ کے گھر کو بھی لپیٹ سکتی ہے۔ اب ملکوں کی معیشت گولہ بارود کے کاروبار پر نہیں کھڑی کی جا سکتی اب بھی موقع ہے دنیا کو امن کا موقع دیجئے۔ محبت اور امن سے کاروبار کیجئے۔ دھمکیاں پابندیاں پاکستانی قوم کو کمزور نہیں کر سکتیں۔ پوری قوم نظریاتی، جغرافیائی، معاشی سرحدوں کی حفاظت کے لئے اپنی حکومت اور پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہے۔ امتحان کی اس گھڑی میں ہماری سیاسی قیادت کو بھی تدبر سے واشنگٹن کے سامنے اپنا ٹھوس موقف بیان کرنا چاہئے۔ صرف ون پوائنٹ ’’قومی مفاد ‘‘ ایجنڈے پر بات کریں۔ ڈان لیکس، پاناما لیکس ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ افغانستان میں پاکستان ہی امریکہ کافطری اتحادی ہے بھارت نہیں۔ افغانستان میں دیرپا امن اور خوش حالی کا راستہ اسلام آباد سے ہی جاتا ہے نئی دہلی سے نہیں اس سے آگے صرف تباہی ہے۔
خطے کے تبدیل ہوتے حالات پاکستان کے سیاسی ماحول کو بھی تبدیل کرتے نظر آرہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ جاری ہے، کئی جماعتوں کے ناراض دھڑوں میں صلح کی کوششیں بھی ہورہی ہیں خصوصاً مسلم لیگ کے وسیع تر اتحاد کی درپردہ کوششیں عروج پر ہیں۔ شریف خاندان، چوہدری برادران کے درمیان گلے شکوے ختم ہو سکتے ہیں۔ ماضی میں شریف برادران کا مشکل وقت میں ساتھ چھوڑنے کا شکوہ مشکل گھڑی میں ساتھ دینے کی بنیاد پر ختم ہو سکتا ہے۔ اے این پی ماں بیٹے کی صلح کے بعد متحد ہو چکی، ایم کیو ایم کے دھڑے اتحاد کی کوششیں کررہے ہیں، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ایک بار پھر دینی جماعتوں کا کردار بہت نمایاں ہوگا۔ دونوں صوبوں میں دینی جماعتیں فرنٹ لائن پر اپنا بھرپور کردارادا کریں گی۔ تبدیل ہوتے خطے کے حالات اور ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی نے ایک بار پھر پوری قوم کو متحد ہونے کا موقع دیا ہے۔ خدارا اسے ہاتھ سے جانے نہ دیجئے۔قوموں اور امتوں کی زندگی میں ایسے مواقع بہت کم آتے ہیں جب ان کی تقدیر فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوتی ہے۔ پاکستان کو بھی خودی اور خودداری کی زندگی بسر کرنے کا ایک تاریخی موقع ہاتھ آیا ہے۔

تازہ ترین