• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چلئے ہو گیا بٹوارہ، ا ب آگے چلئے۔ پر نہیں، ہر سال اگست کے مہینے میں آزادی مناتے ہوئے بھارت اور پاکستان کے بقراط کہیں نہ کہیں یہ سوال ضرور اٹھاتے ہیں کہ کیا واقعی ہندوستان کی تقسیم درست تھی! اور جس لمحے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے اُس سے اگلے ہی لمحے دونوں ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کی حالت زار کا تقابل شروع ہو جاتا ہے کیونکہ یہی ایک طریقہ ہے بظاہر اس سوال کا جواب تلاش کرنے کا۔ کیا یہ طریقہ کار درست ہے؟ شاید ہاں، شاید نہیں۔
مولانا وحید الدین خان صاحب کی سنیے وہ اِس بابت کیا کہتے ہیں۔ مولانا بھارت کے ایک بہت بڑے مسلم اسکالر ہیں، لاتعداد کتابوں کے مصنف ہیں، قرآن کا انگریزی ترجمہ اور تفسیر کرنے کا شرف رکھتے ہیں، قومی اور بین الاقوامی امور پر اُن کی نظر رہتی ہے، بھارت سرکار انہیں بے شمار اعزازات سے نواز چکی ہے، آپ کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ تقسیم ہند کو درست نہیں سمجھتے سو علامہ اقبال اور قائد اعظم کے ’’فین‘‘ نہیں ہیں، خاص طور سے علامہ پر آپ کڑی تنقید فرماتے ہیں لیکن اِن تمام باتوں کے باوجود مولانا کے علمی قد کاٹھ سے انکار ممکن نہیں، بانوے برس کی عمر میں بھی ماشاء اللہ چوکس ہیں، خدا انہیں صحت دے۔ ذاتی طور پر مجھے اُن کی ’’سیلف ہیلپ‘‘ سے متعلق کتابیں پسند ہیں، انداز بیان سادہ مگر پُرکشش ہے، مختلف واقعات اور مثالوں سے زندگی کی حقیقت اور کامیابی کے نسخے بیان کرتے چلے جاتے ہیں، آپ اُن کی کتاب ایک مرتبہ ہاتھ میں لے کر پڑھنا شروع کر دیں پھر اُسے ختم کئے بغیر رکھنا مشکل ہے۔ ایسی ہی ایک کتاب میں مولانا فرماتے ہیں:’’1947سے پہلے ہمارے لیڈر اور ہمارے اخبارات مسلمانوں کو یہ بتاتے تھے کہ ہندوستان میں ان کا مقابلہ ہندو اکثریت سے ہے، یہاں وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔1947میں تقسیم کے بعد بھی یہی ذہن باقی رہا۔ تمام بولنے اور لکھنے والے لوگ مسلمانوں کو یہی منفی سبق دیتے رہے۔اس غوغا آرائی نے مسلمانوں کے ذہن کو اتنا زیادہ بگاڑا کہ وہ سمجھنے لگے کہ ہندوستان میں ان کے لیے کامیابی اور ترقی کے مواقع سرے سے موجود ہی نہیں۔ میں 1947سے اس کے خلاف لکھتا اور بولتا رہا ہوں۔ آخرکار آزادی کے تقریباً 40سال بعد مسلمانوں کا ذہن بدلنا شروع ہوا۔ اب ان کی سمجھ میں آیا کہ ہندوستان میں ان کے لئے ہر قسم کے مواقع کھلے ہوئے ہیں۔ چنانچہ اب یہاں کے مسلمان ہر میدان میں مسلسل ترقی کر رہے ہیں۔پھر میں نے اپنی تقریر میں حاضرین کو براہ راست خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ جو مسلمان اس ہال کے اندر موجود ہیں، ان میں سے ہر مسلمان کی اقتصادی حالت 1947کے مقابلہ میں آج زیادہ بہتر ہے۔ حاضرین میں سے کسی ایک مسلمان نے بھی یہ نہیں کہا کہ 1947میں میری جو معاشی حالت تھی اس کے مقابلہ میں آج میری حالت خراب ہو چکی ہے۔ ہندوستان کا تقریباً ہر مسلم ادارہ، ہر مسلم جماعت، ہر مسجد اور ہر مدرسہ 1947کے مقابلہ میں آج دگنا اور چوگنا ترقی کر چکا ہے۔ تقریباً ہر مسلم خاندان 1947کے مقابلہ میں آج زیادہ بہتر زندگی گزار رہا ہے۔‘‘
مولانا کا بیان گویا خلاصہ ہے اُس بیانیے کا جس کا پرچار ہندوستان سے ہوتا ہے۔ اس بیان کی حقانیت جاننے کا سب سے سہل طریقہ تو ’’سچر رپورٹ‘‘ ہے جو خود بھارت سرکار نے شائع کی اور جس کے مطابق بھارتی مسلمانوں کی حالت زار دلتوں سے بھی بدتر ہے اور سرکاری ملازمتوں میں اُن کا حصہ اُن کی آبادی کے تناسب سے نہ صرف کم ہے بلکہ وہ ملازمتیں بھی نچلے درجے کی ہیں۔ چلئے ٹھیک ہے، ہمیشہ سچر رپورٹ کا ہی حوالہ دیا جاتاہے، کوئی اور بات کرتے ہیں۔ اِمسال اتر پردیش میں ہونے والے ریاستی انتخابات کی بات کر لیں؟ کیا شاندار فتح حاصل کی بی جے پی نے۔ بیس کروڑ اِس ریاست کی آبادی ہے، بیس فیصد مسلمان ہیں، 324نشستیں بی جے پی نے جیتیں اور ایک بھی مسلمان نہیں۔ یہ ہوتی ہماری اوقات، متحدہ ہندوستان میں۔ باقی جو چوبیس مسلمان دیگر جماعتوں کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اُن میں سے اکثریت اُن کی ہے جو اپنی روایتی نشست جیتے، عورت اُن میں ایک بھی نہیں۔ اگر اس سے بھی تشفی نہیں ہوئی تو ایک چکر مقبوضہ کشمیر کا لگا لیا جائے، ایک ایسا خطہ جو مکمل مسلم اکثریت کا حامل ہے، اُس کا حشر بھارت سرکار میں کیا ہو رہا ہے یہ جاننے کے لئے کسی ارون دتی رائے کی ضرورت نہیں، کسی کالج جاتی کشمیری لڑکی سے پوچھ لیں جو حجاب پہنے بھارتی قابض فوجوں پر پتھراؤ کرتی ہے۔ جس ریاست میں نوجوان لڑکیاں اس حد تک آ جائیں وہاں ظلم کی کیا انتہا ہوگی! سو جناب والا مسلمان اگر متحدہ ہندوستان میں ہی ہوتے تو اتنے ہی با اختیار ہوتے جتنے یو پی اور کشمیر میں آج ہیں، شکریہ۔
مغالطہ کچھ اور ہے۔ مولانا وحید الدین نے بھارتی مسلمانوں کی معاشی حالت کا تقابل 1947کے زمانے سے کیا ہے جبکہ یہ سوال اتنا سادہ نہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ فقط معاشی تقابل درست نہیں، سیاسی آزادی اور ریاست کے معاملات چلانے کا اختیار اصل چیز ہے جس کا اندازہ یو پی، کشمیر اور دیگر ریاستوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ اگر معاشی خوشحالی کا تقابل کرنا ہے تو پھر ہندوستان کے مسلمان کا پاکستانی مسلمان سے ہوگا، گو کہ یہ کوئی آئیڈیل طریقہ نہیں کیونکہ تاریخ کے نتائج کی پڑتال اس طرح نہیں کی جا سکتی، لیکن اگر یہ مرحلہ آن ہی پہنچا ہے تو پھر تقابل کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں۔ آج پاکستان کا مسلمان اپنے بدترین حالات کے باوجود بھارتی مسلمان سے بہرحال ہزار درجے بہتر ہے۔ ایک ثبوت تو اس کا وہ سماجی کایا کلپ (social transformation) ہے جو پاکستان بننے کے بعد مسلمانوں کی ہوئی۔ بٹوارے سے پہلے ریلوے اسٹیشنوں پر ’’ہندو پانی‘‘ اور ’’مسلم پانی‘‘ کی آوازیں لگا کرتی تھیں۔ کم ازکم پنجاب میں جو جو لوگ ہجرت کرکے آئے اُن میں ہر کلاس کے لوگ شامل تھے، کیا امیر کیا غریب، کیا پڑھے لکھے اور کیا جاہل، سو اس دلیل میں بھی اتنا وزن نہیں کہ پاکستان کے مسلمان کی حالت اس لئے بہتر ہے کیونکہ یہاں وہی مسلمان آباد ہوئے جو معاشی اور سماجی اعتبار سے پہلے ہی مستحکم تھے۔ پنجاب میں تو جائیداد اور اراضی وغیرہ کا ریکارڈ بھی موجود تھا سو جعلی کلیم حاصل کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ مگر اصل بات وہی تھی، سماجی کایا کلپ کی، یہ اب تک بھارت میں نہیں ہو سکا۔ رہی بات معاشی ترقی کی تو پاکستانی مسلمان اس ضمن میں بھارتی مسلمانوں سے کئی گنا بہتر ہیں، خو د بھی وہ مانتے ہیں۔
بھارتی مسلمانوں کے خلاف ہمارا کوئی مقدمہ نہیں، خدا اُن کی حالت بہتر کرے، جب ہم یہ کہتے ہیں کہ بھارت میں آج ممبئی جیسے شہر میں بھی مسلمان کے لئے اپنے ’’مخصوص علاقے‘‘ سے کرائے پر گھر لینا ممکن نہیں اور وہاں کے مسلمانوں کو بھارت سے اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لئے الٹرا نیشنلسٹ ہونا پڑتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان میں مسلمانوں یا اقلیتوں کے لئے سب اچھا ہو گیا۔ متحدہ ہندوستان میں اقلیت کا جو مسئلہ تھا اور جس کی بنیاد پر بٹوارہ ہوا وہ مسئلہ مسٹر مودی نے مکمل انداز میں عریاں کر دیا، سو تھینک یو مسٹر مودی۔ لیکن اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کا اپنا مقدمہ مضبوط رہے تو اس کے لیے ہمیں اپنی اقلیتوں کو وہی تحفظ اور آزادی دینی ہو گی جو ہم متحدہ ہندوستان میں ہندوؤں سے چاہتے تھے۔ یہی بٹوارے کا کلائمیکس ہے !

تازہ ترین