• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طیارے کو حج کے بعد حاجیوں کو مدینہ منورہ سے کراچی لے کر جانا تھا۔اس پروازکا دورانیہ چار گھنٹے تھا۔ جب مسافر جہاز پر سوار ہوئے تو انھیں جہاز کا ماحول کچھ عجیب سا معلوم ہوا۔ جہاز کے اندر کا درجہ حرارت معمول سے کافی زیادہ تھا۔دراصل جہاز میں ائیر کنڈیشنر انجن سٹارٹ ہونے کی صورت میں ہی کام کرتا ہے ۔ انجن کے سٹارٹ ہونے سے پہلے جہاز کے ماحول کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے ائیر پورٹ والے مو با ئلAC یونٹ کا استعمال کرتے ہیں۔عموماً جب مسافر جہاز پر آرہے ہوتے ہیں تو انجن بند ہی رکھا جاتا ہے۔ اور جب دروازے بند کردیے جاتے ہیںتو اڑان بھرنے سے قبل انجن سٹارٹ کردیا جاتا ہے۔شاید اس دن دنیا میںسب سے زیادہ تیل کی دولت سے مالا مال اس ملک میں کولنگ یونٹ بھی موجود نہیں تھا ۔مسافر صحرا کی شدیدتپش میں پسینے سے بھیگے ہوئے تھے۔جب ہر کوئی شکایت کرنے لگا توانھیں بتایا گیا کہ جیسے ہی جہازاڑان بھرے گا AC چلا دیے جائیں گے مگر ایسا نہ ہوا۔
جہاز عموماً35000سے40000کی بلندی پر پرواز کرتے ہیں۔باہر کی ہوا بہت سرد اور کثیف ہوتی ہے جس میں سانس لینا ناممکن ہوتا ہے۔ اس لیے جہاز کے اندر داخل کرنے سے پہلے ہوا کو compressکیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ہوا گرم ہوجاتی ہے اس لیے اس کو ٹھنڈا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ تاہم، طیارے کے کولنگ سسٹم میں خرابی تھی جس کی وجہ سے اڑان بھرنے کے بعد جہاز کا ماحول مزید گرم ہوگیا۔
یہ بوئنگ 777طیارہ تھا جس میں396تک مسافر سوار ہوسکتے ہیں۔کم جگہ پر زیادہ لوگوں کی موجودگی نے ماحول میں مزید گھٹن اور گرمی پیدا کردی تو مسا فر میگزین اور حفاظتی تدابیر والے کارڈوں کو پنکھے کے طور پر استعمال کرنے پر مجبور ہوگئے۔کچھ لوگ نیم بے ہوش ہوگئے اور مسافروںمیں موجود ڈاکٹر کو انھیں طبی امداد دینا پڑی۔جہاز میں عورتیں اور بچے بھی سوار تھے جن کے لیے یہ ما حو ل دوزخ کا منظر پیش کر نے لگا تھا۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ پائلٹ نے جہاز کو واپس نہیں موڑا اور نہ ہی کسی دوسرے قریبی ائیر پورٹ پر اتارا۔اور مسافروں کے بھرپور اصرار کے باوجود جہاز کراچی ہی لے کرجانے کا فیصلہ کیا۔ ظاہر ہے پرواز کو واپس لے جانا ائیر لائن کے لیے ایک مہنگا عمل ہے جو شیڈول ،ائیرپورٹ اور سٹاف سب کو متاثر کرتاہے۔ یہاں تک کہ مسافروں کو دوبارہ سوار کرنا بھی ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے جس سے ائیرلائن کومزید نقصان ہوتاہے۔لیکن جہاز میں جب بھی کوئی خرابی پیدا ہو تو مسافروں کی حفاظت کے لیے جہاز کو فوراًاتارا جاتا ہے۔کیونکہ اس بات کاخدشہ ہوتا ہے کہ یہ خرابی کسی بڑی خرا بی کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔لیکن پائلٹ اور جہاز کے عملے کو مسافروں کی جان کی پروا نہیں تھی۔عملے نے احتجاج کرنے والے مسافروں کوچپ چاپ بیٹھے رہنے کی تا کید کر تے ہو ئے انکے خلاف کاروائی کرنے کی دھمکی بھی دی ۔میں اس کا تصور تک نہیں کر سکتا جو ان بیچارے مسافروں پر گزری ہوگی۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے لیے زیادہ تکلیف دہ بات کونسی ہے کہ جہاز کے مسافرو ں کو اہمیت نہیں دی گئی ، پاکستانی حاجیوں کے ساتھ ایسا سلوک ہوایا ان حاجیوں کے ساتھ ایسا سلوک اس لیے ہوا کہ وہ پاکستانی تھے۔ آپ خود سوچئے کہ اگر یہ پرواز کراچی نہ جارہی ہوتی اور اس میں پاکستانی مسافروں کی بجائے، دبئی، لندن یا نیو یارک کے مسافر ہوتے ، تو کیا پائلٹ یہی کچھ کرتا؟کیا امریکی، برطانوی یا یور پ کے شہریوں کے ساتھ بھی ایسا سلوک کرنے کا کوئی سوچ سکتا؟کڑوا سچ یہ ہے کہ ایسا بالکل نہ ہوتا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ عام طور پر دنیا میں پاکستانیوں کے ساتھ کچھ خاص اچھا سلوک نہیں کیا جاتا۔ اگرآپ کے پاس پاکستانی پاسپورٹ ہو تو آپ پر ایک الگ قسم کاقانون لاگو ہوتا ہے۔آپ کو کبھی پولیو کے قطروں کاسرٹیفیکیٹ بنوانا ہوتا ہے کبھی با ر بارآپ کی تلاشی لی جاتی ہے کبھی آپ کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ کبھی آپ کے سامان کو بار بار چیک کیا جاتا ہے۔کبھی امیگریشن پر گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ اور اکثر آپ کے ساتھ بدتمیزی کی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ انٹرنیشنل ائیر لائنز کے جوجہاز پاکستان آتے ہیں وہ انتہائی پرانے ہوتے ہیں اور ان پر سروس بھی غیر معیا ری ہوتی ہے۔اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات پاکستانی مزدوروں کے ساتھ ہونے والا سلوک ہے ۔اگر آپ پاکستانی ورکر ہیں اور مڈل ایسٹ میں کام کررہے ہیں تونہ صرف آپ کو سب سے کم تنخواہ دی جاتی ہے بلکہ آپ کے ساتھ برا سلوک بھی کیا جاتا ہے۔حتٰی کہ پاکستانی مزدوروں کو صحرا کی تپش میں لانے لے جانے والی بسوں میں ACتک نہیں ہوتا۔خلیج ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق فضائی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ مزدوروں کے لیے ACبہت مہنگا پڑتا ہے۔ایک بار بھی پاکستانی حکومت یا سفارتخانے نے اس مسئلہ پر آواز نہیں اٹھائی لیکن ایک نوعمر لڑکی شما الزابی نے اس پر وہاں مہم چلائی۔پاکستانی مزدوروں کو کسی قسم کا تحٖفظ حاصل نہیں ہے۔کمپنی آپ کی تنخوا ہ بھی روک لیتی ہے اورکبھی آپ کا پاسپورٹ بھی ضبط کرلیا جاتا ہے۔اگر آپ زخمی ہو جائیں تو آپ کو بغیر کوئی معاوضہ دیے یا صحیح علاج کیے، صرف آپ کی مرہم پٹی کرکے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ اگر ہمارے مزدوروں کے ساتھ تما م انسانی حقوق کے برعکس ایسا سلوک ہوسکتا ہے۔ تو ہمارے مسافروں کی زندگی دائو پر کیوں نہیں لگائی جا سکتی؟کیا ہماری حکومت نے ائیرلائن پر کوئی جرمانہ عائد کیا؟کیا غیرملکی حکومت کے ساتھ اس یا کسی اورمعاملہ کو اٹھایا گیا؟کیا سول ایوی ایشن اتھارٹی نے کوئی بیان جاری کیایا مسافروں کے تحفظ کے لیے کوئی اقدام اٹھا ئے؟ نہیں۔۔۔بالکل نہیں۔۔ہرگزنہیں۔ایسا ہوتا آرہا ہے اور ایسا ہوتا رہے گا۔ہماری حکومت کو کوئی پرواہ نہیں ہے کہ ہمارے لوگوں کے ساتھ کیا سلو ک روا رکھا جا تاہے۔جب ہماری اپنی حکومت اپنے شہریوں کے عزت و وقار کے لیے کچھ نہیں کرسکتی تو ہم دوسرے ممالک ،ان کی حکومتوں اور ان کی ائیر لائنز سے کیا توقع کریں ؟ہمارے وزیراعظم ایوی ایشن انڈسٹری میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔وزیراعظم جانتے ہیں کہ ائیرلائن کو کیسے چلایا جاتا ہے۔مجھے پوری امید ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اس معاملہ کا نوٹس لیں گے۔یہ ایک جہازنہیں ، ایک پرواز نہیں ، چند لوگ نہیںبلکہ پورے پاکستان کی عزت کا معاملہ ہے۔ہم نے دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ اب پاکستانیوں کے ساتھ برا سلوک نہیں کیا جا سکتا۔اگر ہم نے اس پروازسمیت پاکستانی مسافروں او ر مزدوروں کے تمام مسائل پر سنجیدگی سے سٹینڈ نہ لیاتو گرین پاسپورٹ کی بچی کچی عزت بھی ختم ہوجائے گی۔

تازہ ترین