• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطنِ عزیز میں اس وقت جمہوریت کا جو برا حال ہے کوئی لاکھ انکار کرے یہ اگر قابلِ تعزیت نہیں تو قابلِ عیادت ضرور ہے۔ پسِ پردہ عوامل پر بحث ہو سکتی ہے لیکن نیلم پری کی لاچارگی و بے بسی ایسی حقیقت ہے کہ چین جیسی غیر جمہوری سوسائٹی میں بھی حیرت سے یہ پوچھا جا رہا ہے کہ آپ لوگ کس طرح اپنے ایک پاپولر وزیراعظم کو مکھن سے بال کی طرح نکال کر باہر پھینک سکتے ہیں۔ پوری دنیا کو وطنِ عزیز کا سیاسی عدم استحکام دکھائی دے رہا ہے مگر ہمارے طاقتور حلقے مطمئن ہیں کہ الحمدللہ سب اچھا ہے۔ زبانی کلامی یہ ڈھنڈورا ضرور پیٹا جا رہا ہے کہ پورے ملک میں آئین اور قانون کی عملداری ہے۔ بظاہر منتخب پارلیمنٹ کی بالادستی اور تقدس و احترام کا بھی اعتراف کیا جا رہا ہے لیکن اصلیت واقعات و حقائق سے پرکھی جا سکتی ہے۔ آئین اور قانون میں طاقت کا سرچشمہ پاکستانی عوام ہیں جو اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے اقتدار و اختیار کا استعمال کرتے ہیں۔ منتخب پارلیمنٹ عوامی امنگوں کا ترجمان ادارہ ہے لیکن بالفعل یہاں منتخب ادارے کی کیا توقیر چھوڑی گئی ہے؟ سات دہائیوں پر محیط تاریخ کا جائزہ لے لیا جائے اس محترم و مقدس ادارے کے منتخب قائدِ ایوان کے ساتھ کیا کیا بدسلوکیاں نہیں ہوتی رہی ہیں؟
بیسویں اور اکیسویں صدی میں بھی جس کی لاٹھی اُس کی بھینس والا جنگل کا قانون کیا یہاں لاگو نہیں چلا آ رہا ہے؟ لٹھ برداروں نے جب چاہا ہے منتخب عوامی ادارے کو توڑا ہے اور جب چاہا ہے کتاب آئین کو ردی کی ٹوکری میں پھینکا ہے۔ آج تک کوئی منتخب وزیراعظم اپنے عہدے کی میعاد پوری نہیں کر سکا وہ ادارہ جسے آئین کی پاسداری کا منصب سونپا گیا تھا اُس نے ہمیشہ زیادتی کرنے والوں کو تحفظ بخشا۔ سیانوں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ آئین شکنوں کے لیے نرم الفاظ کا استعمال کریں کیونکہ سخت الفاظ تو بنے ہی منتخب نمائندوں کے لیے ہیں انہیں جو چاہو کہو جو گھٹیا الفاظ چاہو لکھو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اپنے چینلز میں دیکھ لو، زمانے بھر کا کیچڑ منتخب نمائندوں پر پھینکو جتنا چاہو مذاق اڑاؤ کوئی اعتراض کرنے والا نہیں ہے ان کی جتنی مرضی ڈمیاں بناؤ تمام آزادی صحافت آپ کو حاصل ہے لیکن یہی رویہ ذرا لٹھ برداروں کے متعلق اپنا کر دیکھو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا ۔
آئین کے مطابق تمام ادارے منتخب اتھارٹی کے ماتحت ہیں منتخب وزیراعظم کچھ استثنیٰ کے ساتھ کسی بھی گریڈ کے سرکاری ملازم کو ہٹانے کا اختیار رکھتا ہے جبکہ خود وزیراعظم کو ہٹانے کا طریقِ کار بھی آئین میں درج ہے مگر اس پر کتنا عمل ہوا ہے؟ منتخب وزیراعظم نے ایک طاقتور سرکش سرکاری ملازم کو ہٹانے کی کوشش کی تھی تو خود اڈیالہ جیل پہنچ گیا تھا۔ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ ملک کی خارجہ پالیسی منتخب ایوان کی بجائے کہیں اور تشکیل پائے گی؟ آئینی طور پر قانون سازی کا اختیار چاہے وہ مذہبی ہو یا انتظامی منتخب پارلیمنٹ کو حاصل ہے لیکن یہاں پورے دھڑلے سے کہا جاتا ہے کہ فلاں معاملے پر اگر پارلیمنٹ نے قانون میں کسی نوع کے ردوبدل کی کوشش کی تو اُسے قبول نہیں کیا جائے گا۔ بظاہر سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے دین میں پرائیویٹ جہاد کا کوئی تصور نہیں یہ صرف ریاست کی ذمہ داری یا حق ہے لیکن ریاستی اتھارٹی کیا منتخب قیادت کے علاوہ بھی کوئی ہوتی ہے جو اندر خانے جتنے چاہے پرائیویٹ جتھے پالتی رہے۔ خلیفتہ المسلمین دوئم نے جب اپنے کمانڈر کو معزول کر کے واپس بلایا تو کیا اُس نے یہ کہا تھا کہ ریاستی اتھارٹی میرے پاس ہے۔
قانون کے مطابق رینجرز وفاقی وزیر داخلہ کی ماتحتی میں آتے ہیں آج ہماری اسلام آباد ہائیکورٹ بھی یہ کہہ رہی ہے کہ احتساب عدالت میں وکلاء، سائلین اور میڈیا کو داخلے سے غیر قانونی طور پر روکا گیا۔ وہ تمام ذمہ داران کو کہہ رہی ہے کہ وکلاء اور صحافیوں کے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی میں رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں تو اس امر کی تحقیقات میں کیا مضائقہ ہے کہ اس نوع کی غیر قانونی حرکت کس نے کی یا کس کے حکم سے کی گئی۔ وفاقی وزیر داخلہ اگر تلملا اٹھے ہیں تو اس میں کونسی بات غلط ہے؟کیا غلط حرکت کرنے والے کی نشاندہی کرتے ہوئے اُس کی تادیب نہیں ہونی چاہیے؟ کہا جا رہا ہے کہ یہ معمولی واقعہ ہے، واقعہ تو ڈان لیکس والا بھی معمولی تھا مگر اُسے کتنا بڑا بنا دیا گیا کیونکہ ہم پوچھتے ہیں جو غیر معمولی واقعات تھے اُن پر کسی کی کیا تادیب ہوئی؟ یہاں توبار بار آئین شکنی کرنے والوں کو کبھی کوئی سزا نہیں ہوئی بلکہ جنہوں نے ملک کو ہی توڑ دیا تھا کیا وہ بھی معمولی واقعہ تھا؟ اتنا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود آج تک کوئی قانون ان کا بال بیکا نہیں کر سکا۔ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ نہ جانے کس سرد خانے میں پڑی گل سڑ رہی ہے۔ کوئٹہ کمیشن رپورٹ اور ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کا بھی یہی حال ہے۔ نہ جانے بڑے اور چھوٹے جرائم کا معیار کیا ہے؟
یہاں ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ طاقتور ہمیشہ سے حوضِ کوثر یا زم زم سے نہائے ہوئے صادق و امین ہوتے ہیں جبکہ منتخب عوامی نمائندے کرپٹ بے ایمان اور قابلِ گردن زدنی، جیل یاترا یا ملک بدری ہیں۔ اگر آئین مقدس ہے تو آئین سازا دارے کا تقدس بھی اسی ریشو سے ملحوظِ خاطر رہنا چاہیے خود پارلیمنٹ اور اس سے منتخب قیادت کو اپنی میعاد پوری کرنے کا حق اُس سے زیادہ ہے جتنے حق کا کوئی اور دعویدار ہے رہ گئی تنقید تو وہ اگر دیگر اداروں پر جائز نہیں ہے تو پھر منتخب بالادست ادارے پر کیونکر روا ہو سکتی ہے۔
آئینی حکم ماننے کا مطلب ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے نظریے کو دل و جان سے مان لیا جائے ملک کی داخلہ و خارجہ پالیسیاں بنانے کا حق اول و آخر منتخب پارلیمنٹ کا ہے اسے صدقِ دل سے تسلیم کر لیا جائے۔ اگر پارلیمنٹ اور اس کی منتخب قیادت کسی بھی ملک سے دوستانہ تعلقات یا امن و سلامتی کا فروغ چاہتی ہے تو اس کے آڑے آنے کی سوچ ختم کر دی جائے۔ اگر پارلیمنٹ اور اس کی منتخب کردہ قیادت پرائیویٹ جہادی جتھوں کا کلی خاتمہ چاہتے ہیں تو حیلوں بہانوں کی کتاب کھول کر حجت بازی کی سوچ کو خیر باد کہہ دیا جائے۔ یہ مان لیا جائے کہ اس مملکت کے حقیقی مالک و وارث بلا امتیاز رنگ و نسل و مذہب اکیس کروڑ عوام ہیں لہٰذا اس قوم کے معتمد نمائندوں کا یہ حق ہے کہ تمام تر ملکی و بین الاقوامی پالیسیاں طے کریں دیگر اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ صدقِ دل سے ان پالیسیوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ اس کے بعد وطن ِ عزیز پاکستان قومی یکجہتی و استحکام کے حوالے سے دنیا میں ایک مینارِ نور اور درخشاں مثال بن کر ابھرے گا۔

تازہ ترین