• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یو این جنرل اسمبلی کے بہترویں اجلاس میں پاک بھارت تعامل کسی بالی ووڈ فلم سے کم نہیں تھاجہاں ایک دوسرے پر نہ صرف زہر میں ڈبوے طنز کےنشتر چلائےگئے بلکہ نہایت ہی جارحانہ زبان بھی استعمال کی گئی جس سے بوریت کے شکار مندوبین اور حاضرین کیلئے یہ نونک جھونک توجہ کا مرکزبن گئی۔ لفظوں کی اس یلغار کے بیچ کشمیریوں پر بھارتی ریاست کی جانب سے ہونے والے مسلسل ظلم اور جبر کو دنیا کے سامنے رکھنے کا ایک سنہری موقع ہاتھ سے نکل گیا۔
پاکستان کے نئے وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے اپنے خطاب کے دوران جموں وکشمیر میں جاری ظلم و ستم روکنے، متاثرین کیلئے انصاف کی فراہمی اور زیادتیوں کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانےکا مطالبہ کیا۔ اس کے جواب میں بھارتی وزیرخارجہ محترمہ سشما سوراج نے پاکستان پر خطرناک حملے کئے حالانکہ اس قسم کے مطالبات نئے نہیں ہیں. پچھلی تین دہائیوں سے بھارت کے بیسوں سیاستدان بشمول بھارت نواز کشمیری لیڈران بار بار ایسے مطالبات کرتے آئے ہیں اور ظلم اورجبر کے شکار لوگوں کیلئے معاوضے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں. بھارت کے امن پسند حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ کشمیراور خطے میں دائمی امن کیجانب کسی بھی قسم کی کوششوں کیلئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے سرکاری سطح پر جاری ظلم اور ستم کو روکا جائے۔ محترمہ سشما سوراج کا ردعمل غیرمعقول اور غیرسفارتی ہونے کے علاوہ شدید معاندانہ تھا. مسلمانوں خاص کر کشمیریوں اور پاکستان کے خلاف اس قسم کا رویہ اب معمول بن گیا ہے جس کا مظاہرہ ہمیں بلاناغہ بھارتی ٹیلی ویژن چینلز پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ اسکے علاوہ اس قسم کی زبان اور بیانیہ دھارمک اجتماعات اور ہندتوا سیاسی مجالس کا طرہ امتیاز بنتا جا رہا ہے جس کا بنیادی مقصد سیاست کے لبادے میں نفرت اور خونریز تشدد پھیلانے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ سوراج نے پاکستان کو ’’دہشت گردی کی فیکٹری‘‘ کا طعنہ دیتے ہوئے اس کو ’’دہشتستان‘‘ کے لقب سے نوازا. اس کے برعکس انھوں نے بھارت کو شاندار علمی اور تحقیقی اداروں کی سرزمین قرار دیا\۔ وزیراعظم مودی نے سوراج کی تقریر کو کافی سراہا اور اسے بصیرت آمیز قرار دیتے ہوئے دہشت گردی کے خطرات کو اجاگر کرنے کے ضمن میں ایک پرزور کوشش سے تعبیر کیا۔
آزادی کے بعد بھارت کے کارناموں میں تعلیمی اور تحقیقی اداروں کا قیام واقعی قابل ستائش ہے مگر پاکستان کیساتھ موازنہ اور طعنے بازی غیر شائستہ ہونے کے ساتھ ساتھ غیرحقیقت پسندانہ بھی ہے. اپنے حجم اور وسائل کے لحاظ سے بھارت اور چین کا موازنہ قدرے متناسب ہے جسمیں چین ہر لحاظ سے آگے ہے. مزید برآں سوراج نے جن علمی اور تحقیقی اداروں کا ذکرکیا وہ کانگریس دور حکومت کے کارنامے ہیں جس کے بارے میں وزیر اعظم مودی نےحال ہی میں دعویٰ کیا کہ انھوں نے ملک کو کچھ نہیں دیا. اسکے برعکس موجودہ حکومت نے اپنے تین سالہ دور میں ہندو شدت پسندوں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے دیومالائی تصورات کو سائنسی اور تاریخی لبادے پہنائے ہیں. یہی وجہ ہے کہ اب جگہ جگہ گاؤخانے تعمیر کئے جارہے ہیں اور ان کے فضلے کو ہر قسم کی بیماریوں حتی کہ تابکاری کے خلاف بھی ایک مؤثر ڈھال کے طور پر پیش کیا جاتا ہےاور اس بارے میں مختلف قسم کے تحقیقاتی پروجیکٹس کی وافر فنڈنگ کی جارہی ہے. مزید اب حکومتی سطح پر ہزاروں سال پرانے دیو مالائی تصورات کو حقیقت کے طور پر پیش کیا جانے لگا ہے. اب سرکاری طور پر یہ دعوے کئے جارہے ہیں کہ بھارت میں ہزاروں سال پہلے نہ صرف کہکشاؤں کے درمیان سفر کرنے کیلئے خلائی گاڑیاں موجود تھیں بلکہ مختلف جانداروں مثلا ہاتھی اور انسانوں کے مابین پلاسٹک سرجری کا چلن تھا جس کی مثال کے طور پرگھنیش بھگوان کو پیش کیا جاتا ہے جس کا سرہاتھی اور جسم انسان کا ہے. ساتھ ہی ساتھ یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ پراچین بھارت میں جینیٹک انجینئرنگ کافی عروج پر تھی۔
بھارتی حکومت کے جانب سے پاکستان کیلئے ’’دہشتستان‘‘ کی نئی اصطلاح اگرچہ غیرمعمولی ہے مگر یہ مودی حکومت کی پالیسی کا حصہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کو تسلیم کرنے کے بجائے ان کا مذاق اڑایا جائے۔ یہی پالیسی امریکہ اور اس کے یورپی حلیف بھی اپنائے ہوئے ہیں تاکہ پاکستان پر غیر معمولی دباؤ برقرار رکھا جاسکے۔ گزشتہ سال کشمیر میں جاری آزادی کی لہر کو دبانے میں ناکامی کے بعد بھارتی حکومت نے پاکستان پر کشمیر میں دہشت گردی کو ہوا دینے کا الزام لگاتے ہوئے اس کو ’’عالمی سطح پر عیاں‘‘ کرنے کا وعدہ کیا۔ اس ضمن میں سفارتی سطح پر کافی کوششیں کی گئیں جو بار آور نہ ہوسکیں کیونکہ بے انتہا ظلم اور جبر کے باوجود کشمیروں کی جدوجہد مجموعی طور پر امن رہی ہے۔
اس بات سے انکار نہیں کہ ماضی میں امریکی سرپرستی میں پاکستانی اداروں نے غیر ریاستی عناصر کی نہ صرف پشت پناہی کی بلکہ انہیں تذویری اثاثہ سمجھ کر ان کی ہر ممکن پذیرائی کی۔ اس طرح کا رویہ بھارت سمیت اکثر ممالک کی خارجہ پالیسی کا حصہ رہا ہے اور امریکہ اور دیگر یورپی ممالک ابھی بھی شام، عراق اور کردستان میں داعش سمیت مختلف قسم کے دہشت گردوں کی پشت بانی کررہے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان نے پچھلی ایک دہائی سے مذہبی اور لسانی دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائی کی ہے اور موجودہ حالات میں دہشت گردی کے خلاف دائرہ کار کو مزید وسیع کیا جارہا ہے. یہی وجہ ہے کہ روس اور چین کی جانب سے پاکستان کی ان کوششوں کو باربار سراہا جارہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف روس میں جاری پاک روس فوجی مشقیں اس بات کی غماز ہیں کہ عالمی سطح پر پاکستان دہشت گردی کے خلاف ایک قابل بھروسہ پارٹنر کے طور ابھر رہا ہے. بھارت نے ہر ممکن کوشش کی تھی کہ یہ فوجی مشقیں کسی طرح سے ملتوی ہوں مگر روس نے بھارتی مطالبات کو در خور اعتنا نہیں سمجھا. اس ضمن میں چین کے سرکردہ انگریزی اخبار گلوبل ٹائمز نے یو این میں بھارتی الزام تراشی کو بےبنیاد قرار دیتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں اور قربانیوں کو سراہا اور بھارت کو اپنے تاریخی اور سیاسی اختلافات کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے سے احتراز کرنے کی صلاح دی۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے اپنے جوابی حق کا استعمال کرتے ہوئے بدقسمتی سے مساویانہ الفاظ کا چناؤ کیا اور بھارت کو دہشتگردی کی ماں قرار دیا. اپنے ولولہ انگیز بیان میں جو شاید ادلے کا بدلہ کی نیّت سے معمور تھا انہوں نے کشمیریوں پر بھارتی مظالم کی منظر کشی کیلئے ایک فلسطینی خاتون کی زخموں سے چور تصویر دکھائی. بھارتی میڈیا اور یو این میں موجود انکے سفارتی دستوں نے اس تصویر کو بنیاد بناکر کشمیر میں جاری ظلم و ستم کی نفی کرنیکی سرتوڑ کوششیں کیں تاکہ اصل مسئلے سے توجہ ہٹائی جاسکے. اگرچہ لودھی کی بھول سے کشمیر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی مگر اس بنیاد پر کشمیر میں سرکاری سرپرستی میں جاری تشدد کو جھٹلایا نہیں جاسکتا جو بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں مثلا ایمنسٹی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ سے واضح ہو جاتا ہے جسمیں بھارتی فورسز کی فائرنگ سے زخمی اور بصارت سے محروم ہوئے 88افراد کے حالات پر تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے جن کی زندگی ریاستی دہشت گردی کی وجہ سے مکمل اندھیرے کا شکار ہوگئی ہے۔

تازہ ترین