• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کربلا کے بعد انداز بیاں … سرداراحمدقادر

کربلا کے بعد ہم نے نجف جانا تھا، نجف اشرف،

سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں سلام پیش کرنے اور ان کی اس عظیم تربیت پر انہیں خراج تحسین پیش کرنے جو انہوں نے اپنے بچوں کی اس طرح کی کہ ان کی اولاد نے ایسی لازوال مثالیں پیش کیں جو رہتی دنیا تک اہل حق کے لئے مینارۂ نور رہیں گی۔ یہ خاندان رسالت ہے، یہ نورانی خاندان ہے اس کا ہرفرد نور علیٰ نور ہے۔
تیری نسل پاک سے ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا
سیدنا امام حسن ؓنے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبردار ہوکر امت کے اتحاد و یک جہتی کا پیغام دیا لیکن معاہدے میں یہ شرط بھی رکھی کہ انتشار و افتراق اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدل اور فتنہ و فساد سے بچنے کے لئے موجودہ حکومت تسلیم کی گئی ہے آنے والی حکومت مسلمانوں کے مشورے اور رائے سے قائم ہوگی وہ کوئی خاندانی حکومت کا تسلسل نہیں ہوگالیکن اس مرحلے سے پہلے حضرت سیدنا امام حسنؓ کو زہر دے کر شہید کردیا گیا۔ اب امام حسینؓ رہ گئےجواموی حکومت کے لئے خطرہ سمجھے جاتے تھے اور ان کے خاندانی اقتدار کی راہ میں آخری رکاوٹ تھے کیونکہ دیگر لوگوں نے تو وقتی مصلحت کے تحت خاموشی اختیار کرلی تھی اور جزیرۃ العرب کی عافیت پر بیٹھنے کو ترجیح دی تھی لیکن میرے امام خطرات کے باوجود کربلا پہنچے اور عزم و ہمت کی داستان رقم کرگئے۔سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے دمشق اور کوفہ کے دربار میں جس طرح کلمۂ حق ادا کیا اور حضرت امام زین العابدینؓ نے جس عزیمت سے خطبہ جمعہ دیا اور دمشق کے ایوانوں کو لرزہ براندام کردیا یہ خاندان رسالت ماب کا وہ نورانی اور تاریخی کردار ہے جو تاابدزندہ و تابندہ رہے گا ایک سفر ہم نے کربلا کے بعد کرنا تھا ایک سفر بحیثیت مجموعی امت مسلمہ نے کربلا کے بعد کیا ہے۔ جو سفر امت نے کربلا کے بعد کیا ہے تاریخ اس سفر کو ملوکیت اور شہنشاہیت کے زیرسایہ رہنے اور خاندانی حکومتوں اور نسل در نسل اقتدار میں رہنے والے بعض نسبتاً بہتر اور اکثر نااہل نکمے اور عیاش حکمرانوں کی رعایا بن کر رہنے کے حوالے سے جانتی ہے۔ ایک خاندان کی غلامی سے جان چھوٹتی تھی تو ایک اور خاندان صدیوں کے لئے مسلط ہوجاتا تھا۔ ایک ظالم جاتا تھا تو اس سے بڑھ کر سفاک مسند اقتدار پر آجاتا تھا۔
تیرے در سے جو بھی یارپھرتے ہیں
در بدر یونہی خوار پھرتے ہیں
بنوامیہ نےنوے سال حکومت کی اور ظلم و ستم کا بازار گرم رکھا۔ درمیان میں صرف ڈھائی سال کے لئے حضرت عمر ابن عبدالعزیز کا مختصر دور حکومت ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا ثابت ہوا پھر وہی بغض وعناد سے بھرے ہوئے حکمران مسلط ہوئے جنہیں آل نبی اولاد علی سے کینہ حسد اور نفرت بے چین کئے رکھتی تھی، وہ اس بات سے جلتے تھے اور کڑھتے رہتے تھے کہ لوگ اولاد علی سے کیوں محبت کرتے ہیں ان کا کیوں احترام کرتے ہیں۔ ایک ایک کرکے خاندان نبوت کے ان پاکیزہ افراد کو نشانہ بنایا گیالہٰذا پھر ان میں سے کچھ شخصیات بخارا، ترمذ، مشہد، گیلان چلے گئے اور ان کی آنے والی نسلیں ان شہروں کے حوالے سے جانی پہچانی گئیں اور آج تک ان شہروں کی نسبت اور وہاں ہجرت کرنے کی وجہ سے انہیں بخاری، ترمذی، مشہدی اور گیلانی سادات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ بنوامیہ سے جان چھوٹی تو عباسی حکمران قابض ہوگئے۔ حکومت حاصل کرنے کے لئے عباسیوں نے آل نبی اولاد علی پر ہونے والے ظلم کا انتقام لینے کے لئے امت کو کھڑا ہونے کا پُرجوش پیغام دیا تھا لیکن اقتدار کا حصول ہی مقصد تھا جب حکمران بنے تو عباسیوں نے بھی آل رسول کو تہہ تیغ کرنے یا ان کی زبانیں خاموش کرانے کے لئے ہر حربہ اختیار کیا۔ مامون الرشید نے امام علی رضا کو اپنا جانشین نامزد کیا تو حکمران خاندان میں بغاوت کے آثار نمودار ہوگئے اس لئے مورخین کا یہ خیال ہے کہ بالآخر امام علی رضا کو زہر دے کر شہید کردیا گیا۔ سیدنا امام حسن کا خاندان مدینہ منورہ میں تھا تو وہاں محمد نفس ذکیہ نے اموی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تو مدینہ منورہ پر حملہ کرکے انہیں شہید کیا گیا۔ عباسیوں کی حکومت آئی تو اس وقت امام جعفر صادق خاندان امام حسینؓ کا ایک روشن ستارہ بن کر چمک رہے تھے اور ابوجعفر المنصور کی آنکھوں میں کھٹکتے تھے اس لئے وہ ان کو راستے سے ہٹانے کے منصوبے بناتا رہتا، کہنے کو تو ابوجعفر المنصور عباسیوں کا ایک کامیاب حکمران اور دینی تعلیم کے حوالے سے امام مالک کا ہم مکتب ہم عصر اور محدث و فقیہ ہونے کے حوالے سے مشہور تھا لیکن امام جعفر صادق کا بغض چین نہیں لینے دیتا اور اپنے محل میں انہیں دعوت طعام دی اور منصوبہ تھا کہ انہیں ایک حبشی غلام کے ہاتھوں شہید کرادیا جائے لیکن امام جعفر صادق کے اردگرد ایک روحانی حصار تھا جس کی وجہ سے انہیں قتل کرنے پر مامور غلام بھی تھر تھر کانپنے لگا اور امام بخیریت واپس تشریف لے گئے۔ امام ادریس جو حضرت امام حسن کے پڑپوتے تھے مراکش یعنی ’’المغرب‘‘ چلے گئے تھے انہیں عباسی حکمرانوں نے اپنے کارندوں کے ذریعے جو بظاہر عقیدت مند بن کر گئے تھے زہر دے کر شہید کردیا۔ ان کی شہادت کے بعد ان کے صاحبزادے امام ادریس الثانی نے مراکش میں اسلامی حکومت قائم کی، تو یہ ہے کربلا کے بعد کی کہانی۔ بنوامیہ، بنو عباس، عثمانی خاندان، غزنوی، لودھی، تغلق، مغل ایک خاندان کے بعد دوسرا خاندان ایک نسل کے بعد دوسری نسل ایک شہزادے کے بعد دوسرا شہزادہ بغیر کسی میرٹ کے کسی صلاحیت کے صرف خاندان کا فرد ہونے کی وجہ سے حکومت کرتے رہے ان میں کچھ باصلاحیت بھی تھے لیکن اکثر نااہل نکمے اور منتقم مزاج تھے اکثر ایسے ہی لوگ مسلمانوں پر آج تک حکومت کررہے ہیں اور یہی ہماری تاریخ ہے، یہ مسلمانوں کی تاریخ نہیں یہ مسلمان حکمرانوں کی تاریخ ہے، ورنہ مسلمانوں کی درخشندہ و تابندہ تاریخ کے کردار امام حسن، امام حسین، امام جعفر الصادق، امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد ابن حنبل ، سیدنا عبدالقادر الجیلانی، امام غزالی، امام رازی، امام قسطلانی، امام شعرانی، امام سیوطی، امام بخاری، داتا گنج بخش علی ہجویری، خواجہ معین الدین چشتی، شیخ شہاب الدین سہروردی، امام ربانی مجدد الف ثانی، شیخ عبدالحق محدث دہلوی، شاہ ولی اللہ، امام نبہانی، امام فضل حق خیرآبادی اور امام احمد رضا بریلوی اور ایسی بے شمار شخصیات ہیں جنہوں نے ہر دور میں ظالم حکمرانوں کے خلاف کلمۂ حق بلند کیا اور کربلا کا پیغام اور سیدنا امام حسین اور ان کے جانثاروں کا مقصد شہادت اور پیغام دعوت و عزیمت زندہ ہے ورنہ حکمرانوں میں تو بس یہی خاندانی حکومتیں ہیں اور اکثر عیاش حکمران ہیں درمیان میں ایسی شخصیات بھی ہیں جو اسلامی تاریخ کا جھومر ہیں جیسے سلطان نورالدین زنگی، سلطان صلاح الدین ایوبی، سلطان محمد فاتح، محمود غزنوی، شہاب الدین غوری، یاد رکھئے کہ یہ سب کسی نہ کسی خاندانی بادشاہت کا تسلسل تھے یا اس کا حصہ تھے اس کے دست و بازو تھے آج بھی جمہوریت کے نام پر خاندانی حکومتیں اور ڈکٹیٹر شپ مسلط ہے یہی کربلا کے بعد ہماری تاریخ ہے، یہی حقیقت ہے۔

تازہ ترین