• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی (تجزیہ۔ مظہر عباس) پاکستان کی سیاست بحیثیت مجموعی قومیتوں کے کارڈز کے گرد ہی گھومتی ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب قومی سطح کی سیاسی جماعتیں اپنا اثرورسوخ کھو بیٹھتی ہیں لیکن ایک کارڈ جو تیزی سے اپنی افادیت کھو رہا ہے، وہ مہاجر کارڈ ہے جب کہ اس کے پھر سے احیاء کے امکانات بھی خاصے معدوم ہیں۔ ایسے میں جب کہ سیاستدانوں اور سیاست کی ڈرائی کلیننگ جاری ہے، اپنے غیرذمہ دارانہ طرز سیاست کی مہاجر قیادت خود ہی ذمہ دار ہے۔ مہاجر سیاست اپنی ہی تخلیق کا خود نشانہ بنی اور لگتا ہے اس نے صحت مند سیاسی کلچر کو فروغ دینے کا خود ہی موقع ضائع کیا۔ وہ صحیح معنیٰ میں متوسط طبقے کی سیاست کو معروف اوور متعارف کرانے میں ناکام رہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کردار کو پرکھے بغیر مہاجر سیاست کا تجزیہ مبنی بر انصاف نہیں ہو گا۔ آج بھی ان کا کردار ختم نہیں ہوا ہے جس سے کراچی کو حقیقی معنیٰ میں منی پاکستان اور اقتصادی حب بنانے میں مدد نہیں ملے گی۔ کراچی جو کسی زمانے میں اپوزیشن کا شہر تصور ہوتا تھا، 1953ء کی طلبہ تحریک، 1968ء کی ایوب مخالف تحریک اور1977ء کی بھٹو مخالف تحریک کراچی ہی نے ان تحاریک میں کلیدی کردار ادا کیا جس کے بعد شہر متشدد لسانی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم ہو گیا۔ سیاست کو فطری بنیادوں پر پروان چڑھنے دینے کے حوالے سے مہاجروں یا اردو بولنے والوں کو حقائق کا سنجیدگی سے احساس ہونے لگا ہے۔ ان کی نمائندہ جماعتیں توقعات پر پوری نہیں اتریں بلکہ انہوں نے تو مہاجر تشخص اور شناخت کو نقصان ہی پہنچایا اور مسخ کیا۔ مہاجر سیاست چاہے حالات کا نتیجہ ہو، ناانصافیوں یا آمریتوں کی تخلیق کردہ ہو یا اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار قرار دیا جائے، مہاجروں کے نام پر سیاست کرنے والوں کو غیرمعمولی اور فقیدالمثال حمایت حاصل ہوئی جس کا موازنہ1970ء میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ اور ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی کو ملنے والی حمایت سے ہی کیا جا سکتا ہے لیکن سندھ میں پیپلزپارٹی پر نظر یا اسے باندھے رکھنے کے لئے مہاجروں کے نام پر سیاست کرنے والے اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال بھی ہوئے۔ ایم کیو ایم کے بجائے مہاجر سیاست کی بات اس لئے کی جا رہی ہے کیونکہ تین دہائیوں سے شہری سندھ میں مہاجروں کے نام پر ہی سیاست ہوتی رہی اور ایم کیو ایم کے اولین اور سابقین ہی اس میں ملوث رہے۔ تعلیمی اداروں اور ملازمتوں میں کوٹا سسٹم ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے رائج ہے جو 2013ء میں اپنی عمر پوری ہونے پر ختم ہو گیا لیکن مہاجر قیادت کو اس کا علم محض سال بھر قبل ہوا۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی طرح مہاجروں کی نمائندہ جماعت نے بھی بیروزگاری کے مسئلے سے گھوسٹ ملازمین یا بلدیاتی اداروں میں ضرورت سے زیادہ ملازمین بھرتی کر کے نمٹنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، کے ایم سی، کے ڈی اے اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سنگین مالی بحران میں مبتلا ہوئے۔ پیپلزپارٹی کی حکومتوں نے بھی تعلیم اور صحت کے محکموں میں ایسی ہی روش اختیار کئے رکھی۔ مہاجر قیادت کے حوالے سے توقع تھی کہ وہ میرٹ کا نظام قائم اور اس پر عمل کرے گی کیونکہ دہائیوں سے میرٹ اور تعلیم ہی ان کی شناخت اور قوت رہی ہے لیکن انہوں نے اپنے ہی سیاسی کلچر کو نقصان پہنچا کر اپنی ہی طاقت کو پارہ پارہ کر لیا۔ تشدد کبھی مہاجر سیاسی کلچر کا حصہ نہیں رہا لیکن1980ء کی دہائی کے بعد سے آج تک ان کے مخالفین انہیں متشدد سیاست کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ بدترین قتل و غارت گری کی گئی، بھتہ خوری اور منی لانڈرنگ نے سب کی نظروں میں انہیں نہایت مشکوک بنا دیا ہے۔ بڑے پیمانے پر نسلی اور لسانی فسادات میں ہزاروں مہاجر قتل ہوئے، اکثر تو خود ان ہی کے ہاتھوں مارے گئے۔ مہاجر قیادت نے متشدد راستہ اختیار نہ کیا ہوتا تو وہ کراچی کو حقیقی معنیٰ میں روشنیوں اور حیدرآباد کو سندھی ثقافت کا مرکز بنا سکتی تھی۔ ایم کیو ایم کسی جبر کے بغیر کئی الیکشن جیت سکتی تھی جیسا کہ2014ء میں این اے۔246عزیزآباد کا اس نے ضمنی انتخاب جیتا تاہم اس سے قبل2013ء کے عام انتخابات میں جب تحریک انصاف نے کراچی سے8 لاکھ ووٹ حاصل کئے تو ایم کیو ایم کی قیادت اشتعال میں آ گئی۔ جو راستہ اس نے اختیار کیا اس کے نتیجے میں اسے آج اپنے وجود کے بدترین بحران کا سامنا ہے۔ آج کی مہاجر سیاست خود اپنی تخلیق کا شکار ہے۔ اس کی قیادت کو خود اپنے ہی رہنمائوں کی شدید تنقید کا سامنا ہے۔ مہاجر کارڈ کی تجدید کا اب امکان دکھائی نہیں دیتا۔ ان کی ایم کیو ایم پاکستان، پاکستان سرزمین پارٹی اور مہاجر قومی موومنٹ حقیقی میں تقسیم ان کے لئے بڑی سازگار ہے جو یہ سمجھتے اور مطمئن ہیں کہ یہ باب اب بند ہونے والا ہے۔ آئندہ عام انتخابات کے نتیجے میں ایک بات یقینی دکھائی دیتی ہے کہ کراچی کی کوئی واحد نمائندہ جماعت نہیں رہے گی۔ ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفی کمال دونوں کو امید ہے کہ وہ آئندہ عام انتخابات میں اپنے حلقہ ہائے انتخاب سے جیت جائیں گے۔ دونوں ہی تشدد کے خلاف ہیں۔ اگر انہوں نے اپنا طرز سیاست بدل لیا ہے تو یہ بہتر ہے۔ انہیں کھلی فکر کے ساتھ انتخاب لڑنے دیا جائے۔ 
تازہ ترین