• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترین نااہلی کیس، دیکھنا ہے ارکان پارلیمنٹ کیلئے بے ایمانی کا معیار کیا ہوگا، چیف جسٹس

Todays Print

اسلام آباد(نمائندہ جنگ،نیوز ایجنسیاں)سپریم کورٹ نے عمران خان اورجہانگیر ترین کی عوامی عہدہ کے لئے نااہلیت سے متعلق مقدمہ کی سماعت کے دوران سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن ایکٹ1969کی شق 15اے اور بی کے حوالے سے عدالت کی معاونت کے لئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مزید سماعت 22اکتوبر تک ملتوی کردی، جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایک بار پھر تنبیہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ ملک اور اسکے ادارے ہم سب کے ہیں،انکا وقار اور ان پر اعتماد قومی فریضہ ہے، مجھے موبائل فون پر پیغام آتے رہتے ہیں کہ آپکا وقار دا ئوپر لگا ہوا ہے،

ایکشن کیوں نہیں لیتے؟ میں جذباتی شخص نہیں ہوں اسی لیے قومی مفاد میں صبر اور حوصلے سے کام لے رہا ہوں اورسب سننے اور جاننے کے باوجود کوئی ایکشن نہیں لے رہا،ملکی مفاد کی لیے اپنے اداروں پر اعتماد رکھیں، کہیں کچھ غلط ہوتا ہے تو اس پر مثبت تنقید کی جا سکتی ہے،ہروقت عدلیہ کونشانہ بنانے والے ہوش کے ناخن لیں ،دیکھنا ہو گا کہ ارکان اسمبلی کی نا اہلی کیلئے بے ایمانی کی نوعیت کیا ہو گی،چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بنچ نے جمعرات کے روز کیس کی سماعت کی ،فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ انتہائی احتیاط اورمحتاط انداز سے کارروائی چلارہے ہیں، میں تو ٹیلی ویژن نہیں دیکھتا لیکن عدالت میں بیٹھے کچھ دوست واٹس ایپ پر چیزیں بھیج دیتے ہیں، جو ان کے موقف کو سپورٹ کرتی ہیں،ایسی آبزرویشن نہیں دی جوگزشتہ روز ہائی لائٹ کی گئیں ، عدالتی آبزرویشنز کامطلب فیصلہ نہیں ہوتا بلکہ یہ آبزرویشنز چیزوں کوسمجھنے کے لیے ہوتی ہیں ، جس پرمسول علیہ جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے کہا کہ عدالت کے سوالات میرے لیے بہت معاون ثابت ہوتے ہیں ،

جب سے کیس شروع ہواہے میں نے بھی اخبار پڑھنابندکردیا ہے ،مجھے یقین ہے کہ میڈیا کی شہ سرخیوں سے قطع نظر عدالت کو اپنافیصلہ جاری کرناہے،چیف جسٹس نے کہا کہ ہم وکیل سے تب سوال پوچھتے ہیں جب معاملہ سمجھ نہ آئے، سکندر بشیر نے اپنے گزشتہ روز کے دلائل کوجاری رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ میرے موکل جہانگیر ترین ایس ای سی پی کے معاملہ کو بند اور ختم کرنا چاہتے تھے، انہوں نے اس کیلئے ایس ای سی پی کو ازالہ کی رقم ادا کی تھی ،حالانکہ ان کے پاس ایس ای سی پی میں اپنے دفاع کیلئے ٹھوس جواز موجود تھا، لیکن وہ کسی تنازع میں نہیں پڑنا چاہتے تھے اور یہی انکی ایمانداری تھی، آئین کا آرٹیکل 62(1)f ایمانداری کو ریگولیٹ کرتا ہے، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ آپ کے موکل جے ڈی ڈبلیو کے شیئر ہولڈر تھے، انہوں نے بطور ڈائریکٹر اندرونی معلومات پر کمپنی کے شیئرز خریدے تھے ،انہوں نے فاضل وکیل سے استفسار کیا کہ اگر انسائیڈ ٹریڈنگ جرم ہے تو کیا فوجداری قانون کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے؟ فاضل چیف جسٹس نے ان سے استفسارکیا کہ فرض کریں ایس ای سی پی کا قانون درست ہے توکیا آپ کے موکل کے تسلیم شدہ اقدامات دیانت کے زمرے میں آتے ہیں؟جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میرے ذہن میں یہ سب چیزیں موجود ہیں اور میں ان سب پربعد میں جو اب دونگا،چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ایس ای سی پی کے قانون پر معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر ر ہے ہیں،

انہوں نے مزید کہا کہ اس ترمیم کو قانون بنانے کے مقصد کے ساتھ ملا کر پڑھنا ہوگا،ہم نےآ پ کے موکل کی جانب سے کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت کے مروجہ قا نون کو بھی دیکھنا ہے، اگر ایس ای سی پی کی ترمیم غیر قانونی قرار دے دی جائے تو آپ یہ موقف اختیار کر سکتے ہیں،لیکن اگر ایس ای سی پی کاقانون درست ہے تو پھر آپ کا موقف مختلف ہوگا، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کے موکل کے خلاف انسائیڈ ٹریڈنگ کیس میں پراسکیوشن لانچ نہیں کی گئی ہے، اس لئے یہ معاملہ ختم ہو چکا ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ بعض ممالک میں انسائیڈر ٹریڈنگ جائز اور بعض میں ناجائز ہے، ہر ملک کے اپنے قوانین ہوتے ہیں، لیکن ہم نے اس مقدمہ کو اپنے قوانین کی حد تک دیکھنا ہے، یہ مقدمہ دیانت داری سے متعلق ہے اوردیانتداری کے کئی معنی ہیں، ہم مجلس شوری کے ایک رکن کو بد دیانتی کے تحت نا اہل قرار دینے کے حوالے سے دائر کی گئی درخواست پر اس کی دیانت کا جائزہ لے رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص کسی کے گھر فون کرکے فون اٹھانے والے کے والد کے متعلق پوچھتا ہے اورباپ بیٹے کو کہے کہ ’’کہہ دو ابو گھر پر نہیں ہیں‘‘،تو کیا یہ بد دیانتی نہیں ہوگی ؟ا نہوں نے کہا کہ ہم مقدمہ اوپن بائونڈری کے ساتھ سن رہے ہیں، جس کی کوئی حدود نہیں ہیں اسی بنا پر روزانہ نئے نئے سوالات جنم لے رہے ہیں، بہت سے سوالات ہیں جن کے جوابات فریقین سے درکار ہیں، کیا دیانتداری کا کرپشن سے کوئی تعلق ہے ؟ کیا دیانتداری کا تعلق عوامی عہدہ رکھنے والے افراد سے ہے؟ ان سوالات پر بھی غور کرنا ہوگا،جس پرفاضل وکیل نے اپنے ایک معاون وکیل کا نام لیتے ہوئے کہا کہ اگر میرے پوچھنے پر یہ کہے کہ 6 بجکر 30 منٹ ہو چکے ہیں، تو یہ درست ہوگا اگر وہ اندازاًکہے کہ تقریباًساڑھے 6بج گئے ہیں تو اس میں کوئی بدنیتی نہیں ہوگی لیکن اگر وہ جان بوجھ کر غلط وقت بتاتا ہے تو اس میں بدنیتی ہوگی،جس پر فاضل چیف جسٹس نے سوال اٹھا یا کہ جان بوجھ کر غلط وقت بتانے کے عمل کو ثابت کون کرے گا؟ انہوں نے بتایا کہ میں آج کل جان بوجھ کر ٹی وی نہیں دیکھ رہا ہوں، ٹیلیویژن نہ دیکھنے کا مقصد یہ ہے کہ مقدمہ متاثر نہ ہو،چیف جسٹس نے فاضل وکیل سے استفسار کیا کہ صرف اس کیس کی حد تک پوچھ رہے ہیں کہ کیا چیٹنگ بد دیانتی ہے؟کیا کسی کو دھوکے سے کوئی چیز دینا اور پھر لے لینا بد دیانتی ہے، جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ جی ہاں لیکن ہر معاملے کی نوعیت کو الگ الگ دیکھنا ہو گا، سپریم کورٹ نے آج تک دیانت داری کی گہرائی سے تعریف نہیں کی ہے، جس پر چیف جسٹس نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک اخبار کے رپورٹر نے آج دیانت داری کا گہرائی سے تجزیہ شائع کیا ہے،وہ صحافی جس نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کی ہے شاید عدالت میں ہی نہیں آیا تھا،میں نے پہلے بھی متعدد بار کہا ہے کہ آپ اپنی عدالتوں پر اعتماد کریں،ہر معاملے میں قومی مفاد کو مد نظر رکھنا چاہئے، فیصلہ مرضی کے خلاف آئے تو بھی قبول کرنا چاہئے،عدالتی فیصلوں کی تشریحات اپنے مفاد کے تحت نہ کریں، جج ادارے ہیں اور اپنے اداروں پر اعتبار اور ان کا احترام کیا جائے،شفاف تبصرہ کرنا ہر شخص کا حق ہے، ملکی مفاد کے معاملات کو بھی دیکھنا ہوگا، لوگوں پر بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر وقت سپریم کورٹ پر تنقید نہ کیا کریں، ہر معاملے کو قومی مفاد میں دیکھنا پڑتا ہے۔

تازہ ترین