• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں ورلڈ فیڈریشن آف قونصلرز کی بورڈ آف ڈائریکٹرز میٹنگ کیلئے تیونس جانے کا اتفاق ہوا۔ ورلڈ فیڈریشن آف قونصلرز دنیا کے اعزازی قونصل جنرلز کی عالمی نمائندہ ایسوسی ایشن ہے جو اقوام متحدہ کے ویانا کنونشن قونصلر ریلیشنز1963ء کے تحت دنیا بھر میں خدمات انجام دے رہی ہے جس کا اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے ساتھ الحاق ہے۔ ورلڈ فیڈریشن آف قونصلرز (FICAC) کا ہیڈ کوارٹر برسلز میں ہے جس کے صدر اکوت ایکن ہیں جن کا تعلق ترکی سے ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک جہاں اُن کے سفارتخانے نہیں ہیں، اپنے ملک کی نمائندگی کیلئے اعزازی قونصل جنرل تعینات کرتے ہیں جن کا کام باہمی ممالک میں تجارت و سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ یہ اعزازی قونصل جنرلز میزبان ممالک کے معروف بزنس مین اور اہم شخصیات ہوتی ہیں جنہیں دونوں ممالک کی حکومتیں باہمی رضامندی سے اپنے ملک کی نمائندگی کیلئے نامزد کرتی ہیں۔ ورلڈ فیڈریشن آف قونصلرز کے تنظیمی امور 10رکنی منتخب بورڈ آف ڈائریکٹرز کرتا ہے جس میں گزشتہ 10 سال سے ورلڈ فیڈریشن آف قونصلرز کے بورڈ پر جنوبی ایشیاکے ریجنل چیئرمین کی حیثیت سے پاکستان کی نمائندگی کررہا ہوں۔ دیگر بورڈ ممبران میں بلجیم، ناروے، یونان، مناکو، بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، قبرص، چلی اور سلوینیا کے ممبران شامل ہیں۔ 12 سے 15 اکتوبر کے اجلاس کی میزبانی تیونس کے اعزازی قونصلر کارپس نے کی تھی۔
تیونس شمالی افریقہ میں بحیرہ روم کے ساحل پر واقع ہے جس کی آبادی تقریباً 16 کروڑ (2010)نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں 98 فیصد عربی، ایک فیصد یورپی اور ایک فیصد یہودی آباد ہیں اور مذہب اسلام ہے۔ تیونس میں عربی زبان بولی جاتی ہے جبکہ دوسری زبان فرانسیسی ہے۔ تیونس کی سرحدیں الجزائر اور لیبیا سے ملتی ہیں۔ اس کے مشہور تاریخی شہر قرطاج کو روم نے فتح کیا تھا جس کے باعث اس خطے کی تہذیب پر یورپ کا اثر نظر آتا ہے۔ بالاخر 12 مئی 1881 میں تیونس باقاعدہ طور پر فرانس کے زیر اثر آگیا۔ یہاں صدارتی طرز حکومت قائم ہے۔ تیونس کے موجودہ صدر زین العابدین نے 1987میں حبیب بورقبہ کو معزول کرکے صدارت کا عہدہ سنبھالا جنہوں نے اپنی زندگی کا طویل حصہ فرانسیسی جیلوں میں گزارا تھا اور بالاخر جدوجہد آزادی کے ذریعے 20 مارچ 1956کو تیونس کو مکمل آزادی مل گئی اور 1957میں حبیب بورقبہ جمہوریہ تیونس کے پہلے صدر بن گئے۔تیونس کی جی ڈی پی تقریباً 49 ارب ڈالر (2014)ہے اور فی کس آمدنی 4329ڈالر (2014)سالانہ ہے۔ تیونس کی معیشت میں 35 فیصد صنعت، 11 فیصد زراعت اور 54 فیصد سروس سیکٹر شامل ہے۔ تیونس کی مجموعی ایکسپورٹس 17ارب ڈالر (2014) ہے جس میں ٹیکسٹائل، زیتون کا تیل اور فاسفیٹ شامل ہیں جبکہ امپورٹ 25ارب ڈالر (2014) ہے جس میں ہائیڈرو کاربن، کیمیکلز اور کھانے پینے کی اشیاشامل ہیں۔فرانس اور اٹلی تیونس کے اہم تجارتی پارٹنرز ہیں۔ پاکستان نے 1948-54ء میں تیونس کو اس کی جدوجہد آزادی میں مدد کی۔ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان نے اقوام متحدہ میں مراکش کی طرح تیونس کی آزادی کیلئے وکالت کی۔ 1951-54ء میں پاکستان کے اقوام متحدہ میں مستقل نمائندے پطرس بخاری نے سیکورٹی کونسل میں تیونس کی آزادی کیلئے ایک تاریخی تقریر کی تھی اور آج بھی تیونس میں مرحوم کے نام سے ایک شاہراہ منسوب ہے۔2014-15ء میں دونوں ممالک کی باہمی تجارت صرف 33 ملین ڈالر تھی۔ دونوں ممالک باہمی تجارت بڑھانے کیلئے ایک ترجیحی معاہدے (PTA) پر کام کررہے ہیں۔ پاکستان سے ٹیکسٹائل فیبرک، فارماسیوٹیکل، چاول، آلات جراحی، لیدر گڈز، اسپورٹس گڈز ایکسپورٹ کئے جاسکتے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان میں تیونس کے سفیر عادل العربی نے سیالکوٹ چیمبر کا دورہ کیا اور بتایا کہ پاکستان تیونس کے راستے شمالی افریقہ، مڈل ایسٹ اور یورپ کی مارکیٹ تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔
دورے کے پہلے دن ہماری ملاقات تیونس کے سیکریٹری آف اسٹیٹ (وزیر خارجہ) صبری باچتوبجی سے وزارت خارجہ میں ہوئی۔ ہمارے قیام کا انتظام تیونس کے ساحلی ریزورٹ میں ایک ہوٹل میں کیاگیا تھا جس میںورلڈ فیڈریشن آف قونصلرز کا اجلاس دو دن جاری رہا۔ دورے کے آخری دن تیونس کے اعزازی قونصلر کارپس کےصدر جلیل بوراوی نے ورلڈ فیڈریشن آف قونصلرز کے ممبران کو تیونس کے تاریخی مقامات کا دورہ کرایا جس میں رومن امپائرز کا تاریخی شہر کارتاج قابل ذکر ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے تیونس سے 20 کلومیٹر فاصلے پر تاریخی شہر سیدی بوسعید جو دنیا کے نامور آرٹسٹوں کیلئے مشہور ہے، کا دورہ کیا جس کی تمام عمارتیں سفید اور نیلے رنگ کی ہیں جو سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہیں۔ ہماری تیسری منزل باردو نیشنل میوزیم تیونس (2005ء) تھی جس میں رومن اور اسلامی تہذیب کے حسین سرامک نمونوں نے ہم پر سحر طاری کردیا۔ تاریخی مقامات کے دورے پر ہم نے تیونس میں مقیم معروف برطانوی موسیقار بیارون ڈی آرلینگر کے 250 آلات موسیقی کا تاریخی مجموعہ دیکھا جسے اینجما ایزہرہ پیلس کے احمد الوافی ہال میں نہایت خوبصورتی سے پیش کیا گیا تھا۔ اس ہال میں دیگر علاقائی ممالک مصر، کویت، موریطانیہ اور اسپین کے آلات موسیقی کی بھی نمائش کی گئی ہے۔ یہ تاریخی آلات موسیقی سے دلچسپی رکھنے والے سینکڑوں سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔ سیاحت تیونس کی معیشت کا ایک اہم سیکٹر ہے اور ہر سال لاکھوں سیاح سیاحت کیلئے تیونس آتے ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 2009ء میں 6.9 ملین سیاح تیونس آئے تھے جبکہ 2015ء میں یہ کم ہوکر 5.3 ملین ہوگئے جن میں زیادہ تر لیبیا، فرانس، الیجریا، جرمنی، اٹلی اور برطانیہ کے سیاح شامل تھے۔ دورے کے آخری دن شام میں تیونس کے اعزازی قونصل جنرلز کی فیڈریشن نے ہمارے اعزاز میں مورادی ہوٹل گامرات میں ایک پرتکلف عشایئے کا اہتمام کیا جس میں تیونس میں مقیم مختلف ممالک کے سفیر، اعزازی قونصل جنرلز، ممتاز صنعتکاروں، حکومتی نمائندوں اور وزارت خارجہ کے اعلیٰ عہدیداروں نے شرکت کی۔ پاکستانی سفیر کے تیونس میں موجود نہ ہونے کے باعث پاکستانی سفارتخانے کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن شفیق احمد نے شرکت کی۔ عشایئے میں تیونس کی آزادی کے بعد پہلے وزیر خارجہ سے بھی ملاقات ہوئی۔ تیونس دنیا میں زیتون کا تیل ایکسپورٹ کرنے والا اہم ملک ہے۔ میری دعوت پر تیونس کے زیتون تیل کے سب سے بڑے ایکسپورٹر خالد بن جیمہ جو تیونس میں ہنگری کے اعزازی قونصل جنرل بھی ہیں، نے نومبر میں ’’پاکستان ایکسپو‘‘ میں شرکت کا وعدہ کیا ہے۔
ورلڈ فیڈریشن آف قونصلرز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے حالیہ تیونس اجلاس میں، میں نے ورلڈ فیڈریشن آف قونصلرز کے آئندہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اجلاس پاکستان میں رکھنے کی تجویز دی ہے تاکہ ہم پاکستان کی بہتر امن و امان کی صورتحال اور سی پیک جو علاقے کیلئے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے، کے عظیم منصوبوں کے بارے میں ورلڈ فیڈریشن آف قونصلرز کے قونصل جنرلز کو آگاہ کرسکیں۔

تازہ ترین