• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی قومی سیاست کا دائروں میں سفر جاری ہے۔ ہمارے مقدر میں سیاسی جماعتوں کے حوالے سے توڑ پھوڑ کرنے والوں میں ابتدائی ترین نام اسکندر مرزا مرحوم کا ہے، 2017تک پہنچتے پہنچتے یہ تحفہ ہمیں شیخ رشید کی شکل میں موصول ہوا، وہ ملتان کے جلسہ عام میں 25یا 70ارکان کی فہرست جیب سے نکال کر لہراتے اور عوام سے کہتے ہیں ’’یہ وہ ہیں جو ’’ن‘‘ لیگ چھوڑنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں؟‘‘
کیا شیخ رشید اس قوم کو کسی نئی ایجاد سے متعارف کرا رہے ہیں؟ وہ سیاسی تاریخ کے منفی ابواب میں ایک اور منفی باب کے کنوینر ہیں، انہیں کبھی یاد نہیں رکھا جائے گا، عوام کی عدالت میں رائج زبان ان کے لئے مہذب الفاظ استعمال کبھی عمل میں نہیں لائے گی۔
اصل کہانی دائروں کے سفر میں پاکستانی سیاست کے تاریخی چہرے کا بار بار ابھرنا ہے۔ دو گروہ ہیں ایک ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کا نمائندہ ہے دوسرا آئین کی ’’زیر دستی ووٹ کی بے حرمتی اور جمہوری تسلسل میں بار بار تعطل اور منسوخی کا محترک، منصوبہ ساز اور نمائندہ ہے۔
پاکستانی سیاست کا تاریخی چہرہ ’’آئین کی زیردستی، ووٹ کی بے حرمتی اور جمہوری تسلسل میں بار بار تعطل اور منسوخی‘‘ کے اس محرک، منصوبہ ساز اور نمائندہ کردار کو پاکستانی 7؍اکتوبر 1958کے ایوب خاں سے لے کر 12؍ اکتوبر 1999ء کے پرویز مشرف تک، 12؍ اکتوبر 1999کے پرویز مشرف سے لے کر آج کے نواز شریف کی ’’معزولی کے فیصلے‘‘ تک مسترد کرتا آ رہا ہے، چنانچہ لندن میں ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل کا پاکستان کے 70ویں برس میں، وہی تاریخ ساز چہرہ پھر ابھرا ہے۔
یعنی پاکستان کی قومی سیاسی جماعت ’’ن‘‘ لیگ کے نواز شریف ہی اس کے منتخب صدر ہیں، جماعتی آئینی اصولوں کے تحت متعلقہ ارکان جماعت نے انہیں ہی منتخب کیا ہے۔ انہیں ’’مائنس ون‘‘ کی صورت نہیں دی، پوسٹر پر نواز شریف ہی کی تصویر لگے گی، مائنس ون، فارمولے کی مخالفت کریں گے اور یہ کہ ’’نون‘‘ لیگ کے صدر اور منتخب وزیراعظم ہونے کے باوجود ’’معزولی او رمقدمات‘‘ کے شکار نواز شریف وطن واپس آ کر سیاست میں مقابلہ اور عدالتوں کا سامنا کریں گے، گویا پاکستان کے 70ویں برس 70ویں بار بھی صحافت و سیاست کے متعصب یا کم نگاہ مخالفین اور صحافیوں کی پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئیں اور انہیں 70ویں بار بھی کسی ذہنی خجالت کا احساس نہیں ہو گا۔
جب لندن میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کے 70ویں برس بھی جاری دائروں کے سفر میں پاکستانی عوام کی سوچ کا تاریخ ساز چہرہ ابھر رہا تھا، عین اس وقت یہاں راولپنڈی کے پنجاب ہائوس میں چوہدری نثار میڈیا سے گفتگو میں کہہ رہے تھے ’’میں نے مشورہ دیا تھا کہ اگر جے آئی ٹی پر تحفظات ہیں تو حکومت کو فوجی قیادت سے بات کرنی چاہئے تھی‘‘، سوال یہ ہے کس حیثیت سے؟ کیا پاکستانی آئین کے تحت ملک کی کوئی بھی منتخب حکومت اور اس کا منتخب وزیراعظم اپنے کسی ریاستی ادارے کے سربراہ کے پاس جا کر اس سے ’’راستہ مانگنے‘‘ کا مجاز ہے؟ اور کیا پاکستان کا آئین یا اس آئین کی روح یہ اجازت دیتی ہے؟ عملیت پسندی اگر دلیل ہے اور ’’اداروں سے ٹکرائو‘‘ کی ذمہ داری کا غیر منصفانہ ’’اطلاق‘‘ اگر جواز ہے تب یہ اپروچ درست ہو سکتی ہے مگر ان کے مشورے کا ملکی آئین کے فریم سے کوئی تعلق نہیں۔
پاکستان کی سیاست میں فکری رجعت پسندی کی روایت فکری ترقی پسندی میں تبدیل ہو رہی ہے، وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال ایسے مکتب فکر سے متعلق ہیں، ایسے نظریاتی ماحول میں پروان چڑھے جس کے نظریات ملت اسلامیہ ہی نہیںپاکستانی عوام کے فکری ارتقائی سفر میں رکاوٹ بنتے رہے، ہمیشہ بنتے رہیں گے، میری مراد جماعت اسلامی سمیت پاکستان کی تمام مذہبی جماعتوں کے انداز نظریۂ و عمل سے ہے، احسن اقبال کا نظریاتی خمیر بنیادی طور پر جماعت اسلامی سے اٹھا ہے، تاریخ کا جبر انہیں آج پاکستانی عوام کے اجتماعی نظریاتی فیصلے کا نمائندہ بنا کر سامنے لایا ہے، چنانچہ ان کے بیانات قائداعظم کے پاکستان کی جھلکیاں دکھا جاتے ہیں، اپنے تازہ ترین ٹویٹ پیغام میں احسن اقبال نے اپنی فکری سوچ کو پاکستانی عوام کی سوچوں کے ساتھ فیصلہ کن سکیل پر ہم آہنگ کرتے ہوئے کہا ’’ہر دس سال بعد آمریت قابض ہو جاتی ہے، اب 2020میں کیا ہو گا؟‘‘ خفیہ ہاتھ جمہوری نظام تباہ کرنا چاہتے ہیں اس بار عوام روایت توڑ دیں گے۔ ہماری تاریخ جمہوریت اور آمریت کے گرد گھوم رہی ہے، 50ء میں جمہوریت 60ء میں مارشل لاء ، 70میں ڈیموکریسی پروان چڑھی، 90میں آمریت نے تختہ الٹ دیا، طویل جدوجہد کے بعد 2000ء میں جمہوری عمل بحال ہوا۔‘‘
اداروں سے ان کا تصادم نہیں جو ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کی نظریاتی اور عملی جنگ لڑ رہے ہیں، اداروں پر وہ حملہ آور ہیں جو ’’ملکی آئین کی زیردستی،ووٹ کی بے حرمتی اور جمہوری تسلسل میں تعطل اور منسوخی کے حملہ آور رہے، حملہ آور ہیں، پاکستانیوں نے ہر قومی انتخاب میں ان افراد یا قوتوں کو بدترین سطح پر مسترد کیا۔
بروز جمعۃ المبارک 27اکتوبر 2017’’دی نیوز‘‘ کے تحقیقاتی رپورٹر احمد نورانی پر دن دیہاڑے آب پارہ اسلام آباد کے مصروف ترین علاقے میں حملہ ہوا، ملزمان آہنی پنجوں، سلاخوں اور چاقوئوں سے لیس تھے، احمد نورانی کی زندگی بچ گئی ہے۔
عزیزم نورانی پر حملے نے مجھے جواں سال کالم نگار یاسر پیرزادہ کے ساتھ چند لمحے گزارنے کا احساس دلایا ہے، انہوں نے اپنے تازہ کالم کا آغاز مارٹن تا بمبولر نامی پادری کی ایک شہرہ آفاق نظم سے کیا ہے، انگریزی میں درج شدہ اشعارکا برزبان اردو ترجمہ کچھ اس طرح ہے۔
-oپہلے روز وہ سوشلسٹوں کو پکڑنے آتے، میں خاموش رہتا میں بہرحال سوشلسٹ نہیں تھا۔
-oپھر وہ مزدور ٹریڈ یونینوں کے لیڈروں کو لے گئے، میں خاموش ہی رہا دراصل میں ٹریڈ یونینسٹ بھی نہیں تھا۔
-oایک دن اور گزرا، وہ یہودیوں کی گردونوں پر آن دھمکے خیر میں پھر بھی نہیں بولا، میاں! میں یہودی تو تھا نہیں۔
-oبالآخر ایک لمحہ ایسا تھا، جب وہ مجھے قیدی بنانے کو میری دہلیز پر موجو دتھے لیکن اس لمحے تو پوری گلی میں کوئی بولنے والا ہی نہیں تھا۔
ایسی بیسیوں مثالیں سسک رہی ہیں۔ جس کی جان لینے کا واقعہ ہوتا ہے، وہ طویل مدت تک کوئی ’’فقرہ‘‘ سننے کے قابل ہی نہیں ہوتا، اس کے وارث خوف کی برچھیوں تلے ہوتے ہیں، ہمارے ریاستی ادارے، غیر موثر کیوں ہو گئے۔ مصنوعی جملوں کا استعمال کم از کم بند ہو جانا چاہئے، جنہوں نے غرناطہ ڈبویا تھا، وہ آخری روز بھی اپنی اکڑ پر قائم تھے، پاکستان آئین اور آئین شکنی کے مابین سسک رہا ہے، بس اللہ سے دعا کریں!

تازہ ترین