• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 کیا کوئی ہمیں بتا سکتا ہے کہ سیاسی لیڈروں کے ایک عام جلسے پر کتنا خرچہ آ تا ہے؟ دودو سوفٹ لمبااور سو سو فٹ چوڑا اسٹیج، پندرہ پندرہ بیس بیس ہزار کرسیاں، شامیانے اور قناتیںالگ، اوپرسے سائونڈ سسٹم، پھر لیڈروں اور ان کے بچونگڑوں کا آنا جانا، ایک کروڑ تک تو پہنچ جا تا ہو گا ایک جلسے کا خرچہ؟ اور اگر یہ جلسہ ہفتے دو ہفتے ہر روز کیا جا ئے تو کل ملا کے کتنا خرچہ ہو جا تا ہو گا؟ہماری گنتی تو لاکھ دو لاکھ یا کروڑ دو کروڑ پرختم ہو جا تی ہے۔ اس کے بعد ارب کی گنتی شروع ہو تی ہے۔ یہ ارب والی گنتی ہمارے حساب دانوں نے کتابوں اور دستاویزوں سے مٹاہی دی ہے۔ اب دو ہزار کروڑ اور دس ہزار کروڑ کہہ کر یا لکھ کر گنتی آگے بڑھا ئی جا تی ہے۔ ہم جب حساب یاریاضی پڑھتے تھے تو ہمیں رٹا یاجا تا تھا، ہزار دس ہزار،لاکھ دس لاکھ، کروڑ دس کروڑ، ارب دس ارب، کھرب دس کھرب، پدم دس پدم اور نیل دس نیل، یہ پدم اور نیل کتنا ہو تا تھا؟ یہ ہماری سوچ سے بھی آگے کی بات تھی لیکن پدم اور نیل سے آگے ساری گنتی ختم ہو جا تی تھی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ اس سے زیادہ رقم کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آج کل تو دولت کی گنتی کھربوںاور پدموں سے کہیں آ گے نکل چکی ہے اس لئے کروڑ پر آکر رک جا تی ہے اس کے بعد کروڑوں پر ہزار لگاتے چلے جا تے ہیں اورہاں، اب ہم ملین، بلین اور ٹریلین میں بات کرتے ہیںتو کیا یہ عام جلسے بلین اور ٹریلین تک پہنچ جا تے ہیں؟ بالکل پہنچ جا تے ہوں گے۔ اگر سال بھر یہ جلسے اسی طرح جا ری رہیں توخرچہ وہاں تک ہی پہنچ جا تا ہو گا؟
اب یہ خرچہ کہاں سے آتا ہے؟کون دیتا ہے یہ بھاری بھرکم رقم؟ یہ سوال اس فلمی مکالمے کی طرح ہے کہ ’’کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے؟ کون لا یا ہے یہ جھمکے؟ اب یاد نہیں کہ فلم میں معلوم ہو گیا تھا یا نہیںکہ وہ جھمکے کہاں سے آئے تھے اور کون لا یا تھا؟لیکن سیاسی جلسوں پر خرچ ہونے والے یہ لاکھوں کروڑوں روپے ہماری نظروں سے اوجھل ہی رہیں گے۔ احتساب والے یا الیکشن کمیشن والے بھی اس پر سوال نہیں کر سکتے۔ ’’ہمارے جاں نثار ہی یہ رقم خرچ کرتے ہیں‘‘ ہر سوال کا جواب یہی ہو گا۔ یہ جاں نثار کون ہیں؟ آج کے جاں نثاروں کا تو ہمیں علم نہیں، البتہ بھٹو صاحب کیخلاف جب مہم چلائی گئی تھی تو ہم جانتے تھے کہ یہ رقم کہاں سے آ رہی ہے۔ ان سارے کارخانے داروں نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دئیے تھے جن کے کارخانے بھٹو حکومت نے قومیا ئے تھے۔ اب اس وقت کہیں باہر سے بھی رقم آ رہی تھی؟ یہ پیپلز پارٹی والے ہی بتا سکتے ہیں۔
آج کل یہ رقم کہاں سے آ رہی ہے؟ یہ سیاسی جماعتوں کے حلقے ہی بتاسکتے ہیں۔ البتہ ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ آج جو لوگ یہ رقم خرچ کر رہے ہیں انہیں توقع ہے کہ اس پارٹی کی حکومت آنے کے بعد وہ سود در سود کے ساتھ یہ رقم واپس لے لیں گے۔ ہمیں تو یہ سوچ کر سکون ملتا ہے کہ معاشیات کے اصول کے مطابق پیسہ ایک جیب سے دوسری جیب میں جا رہا ہے۔ کہتے ہیں ناکہ سر مایہ دارانہ معیشت اسی طرح چلتی ہے کہ سرمایہ چلتا پھرتا رہے، ایک جگہ اکٹھا نہ ہو، سیاسی جلسوں میں اسٹیج سجانے والے کر سیاں فراہم کر نے والے، بجلی کا انتظام کر نے والے اور سائونڈ سسٹم چلانے والے اپنا خرچہ وصول کرتے ہیں۔ گویا سرمایہ بڑے کھاتے پیتے لوگوں کی تجوری سے نکل کر ان کارندوں کی جیب میں جا تا ہے۔ یہ کارندے ہی تو ہیں۔ ان کے بغیر تو جلسہ ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن ایک اور حلقہ بھی تو ہے جو اس سے فا ئدہ اٹھا تا ہے۔ وہ ہیں ڈاکٹر اور دوا فروش، آپ خود ہی سو چئے۔ ایک سیاسی لیڈر ہرروز بلا ناغہ جلسے کرے، اور عام آ دمی کو مرعوب کر نے کے لئے چیخ چیخ کر اپنا گلا پھاڑ ے تواسے آرام کی ضرورت تو پڑتی ہو گی نا؟ اور اس آرام کے لئے اعصاب کو سکون پہنچانے والی دوائوں کی ضرورت بھی پڑتی ہو گی ؟گویا،خاصی بھاری رقم ڈاکٹروں اور دوا فروشوں کے پاس بھی چلی جا تی ہو گی۔ ہمیں تو حیرت ہو تی ہے بلکہ رشک آتا ہے ا ن عوامی لیڈروں پر جو ہر روز گلا پھاڑ پھاڑ کر تقریریں کرتے ہیںاور ان کا گلا نہیں بیٹھتا ،ہم تو ذرا بھی زور سے آواز نکالیں تو ایسا گلا بیٹھ جا تا ہے کہ گرم پانی کے غرارے کرنا پڑ جا تے ہیں۔ اس پر جسمانی تھکن مستزاد۔جوڑ جوڑ ٹوٹنے لگتا ہے۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ یہ لیڈر گھر جا کر کوئی نہ کوئی دوا ضرور کھاتے ہوں گے ۔
بہر حال یہ ہماری اپنی پریشانیاں ہیں۔ اگر عام آ دمی اس سے خوش رہتا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ دیکھیے نا، کوئی بھی جماعت جلسہ کرے تو لوگوں کا ایک ہجوم وہاں پہنچ جا تا ہے۔ کیا یہ سارا ہجوم جلسہ کرنے والے سیاسی لیڈر کا جاں نثار ہی ہوتا ہے؟ یہ نہیں کہا جا سکتا۔ اس ہجوم میں تماشہ دیکھنے والے بھی تو ہو سکتے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ کسی زمانے میں۔ جب ہمارے اعصاب مضبوط تھے۔ تو جہاں بھی کسی جانے پہچانے سیاسی لیڈر کاجلسہ ہوتا تھا تو ہم وہاں پہنچ جاتے تھے۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا کہ ہم اس لیڈر کے حامی یا ماننے والے ہیں۔ اس لئے ہم ان سیاسی لیڈروں کو سمجھانا چاہتے ہیں کہ آپ کے جلسے میں جتنے بھی لوگ جوق در جوق آتے ہیں وہ سب آپ کے حامی اور آپ کے ووٹر ہی نہیں ہو سکتے، تماش بین بھی ہو سکتے ہیں۔ یہاں ہم عطاء اللہ شاہ بخاری کا یہ قول دہرانے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں کہ ’’ہمارے جلسوں میں تو ہزاروں لوگ آتے ہیں، مگر الیکشن میں ہمیںووٹ کوئی نہیں دیتا۔‘‘

تازہ ترین