• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سمندر کے پانی سے بھیگی ہوئی نمکین ساحلی ہوا نے کراچی کی دیواروں پر لکھا ’’باطن کے گلاس میں سمندر پڑے پڑے صحرا بن گیاہے۔ مچھلیاں سن باتھ کرنے لگی ہیں۔ ایک ایک کیکر کے درخت سے سوسو کچھوے لٹک گئے ہیں۔ صدیوں کے پیٹ سے ٹائی ٹینک نے نکل کر موٹیل کا روپ دھار لیا ہے۔ موٹیل کے ڈانسنگ روم میں اژدھوں کا رقص جاری ہے۔ ڈائننگ ٹیبل پر بھیڑیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ روباہیں انسانی گوشت سرو کر رہی ہیں۔ بار روم میں اونٹ اونگھ رہے ہیں۔ جم میں غزال اپنی ٹانگوں کے مسل مضبوط کرنے میں لگے ہیں۔ ہیر ڈریسر بلیاں کتوں کے بال کاٹ رہی ہیں۔ بیڈ روموں سے ہاتھیوں کے خراٹے سنائی دے رہے ہیں۔‘‘
کراچی کا مسئلہ راجہ داہر کے زمانے سے خراب چلا آرہا ہے۔ حجاج بن یوسف نے اسی مسئلہ کو حل کرنے کے لئے محمد بن قاسم کو کراچی بھیجا تھا جن کے ساتھ بہت سے سید بادشاہ بھی عرب کی مبارک سرزمین سے ِاس خرابے میں آئے تھے۔ بیچارہ راجہ داہر شور مچاتا رہ گیا تھا کہ یہاں امن و امان کی کوئی خرابی نہیں۔ کسی نے کسی عورت کی عصمت دری نہیں کی۔ کسی نے کسی بے گناہ کا قتل نہیں کیا۔ کسی نے کسی مسافر جہاز کو نہیں لوٹا مگر حکمرانوں کے کہنے سے حقائق تھوڑے بدلتے ہیں۔ میں جب بھی کراچی گیا ہوں تو وہاں کے وہی مناظر تھے۔ وہی منظر جن سے بھاگتے بھاگتے میں کسی اور دنیا میں پہنچ گیا تھا۔ وہی حمامِ سگاں تھے یعنی کتوں کے سوئمنگ پول۔ وہی گرگِ باراں دیدوں کی مجلس تھی یعنی بھیڑیوں کی مجلس۔ اسی طرح دیواریں لہو سے سرخ تھیں۔ وہی چلتی پھرتی لاشیں اپنی قبریں تلاش کررہی تھیں۔ وہی کتا اپنے ساتھی کتے سے کہہ رہا تھا بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا۔ وہی ملبوس ناآشنا بدروحیں تھیں یعنی برہنہ عورتیں۔ لیلیٰ بھی ویسی ہی تھی مجنوں بھی ویسا ہی تھا۔ وہاں بھی سعادت حسن منٹو کے محلے میں چودہ سالہ رضیہ کو محلے کے لڑکوں نے آنکھیں مار مار کر جوان کر دیا تھا۔ کراچی کے حالات پر ایک اور نثری نظم یاد آرہی ہے سوچتا ہوں وہ کسے سنائوں مصطفی ٰکمال کو یا فاروق ستار کو۔ شاید یہ نظم دونوں کے سروں سے گزر جائے۔ ویسے بھی دونوں اس وقت خاموش ہیں۔
”کراچی۔ ایک ہیری کین۔ وقت پر بجتا ہوا پیانو کا خاموش نوٹ۔ کراچی۔ لاکھوں لوگوں کا سفر۔ اپنے مرے ہوئے دوستوں کی روحوں کی تلاش میں۔ کراچی۔ گندے نالے میں گرتے ہوئے پانی کی تشدد آمیز زور دار آواز۔ کراچی۔ ایک ٹوٹے ہوئے کھلونے کے گھاس پر بکھرے ہوئے ٹکڑے۔ ٹکڑے جنہیں جوڑا نہیں جاسکتا۔ کراچی۔ کالے جنگلوں میں کبھی نہ ختم ہونے والا سفر۔ کراچی۔ سورج کو چھپانے والا کالا بادل۔ کراچی ۔گرم پتھروں کی آگ پر جلنے کا عمل۔ کراچی۔ ایسے سایوں کے درمیان چل رہا ہے جو کبھی نہ دیکھےگئے ہیں اور نہ سنے گئے ہیں مگر موجود ہیں۔ کراچی۔ ہنگام بھری سرگوشیوں سے ٹوٹی ہوئی خاموشی“۔
مصطفیٰ کمال اور فاروق ستار بے چارے کیا کریں۔ بلدیہ فیکٹری میں جل کر مرنے والوں کی روحیں ان کے گھروں کے اردگرد جمع ہیں۔ راتوں کو کھڑکیوں سے جھانک جھانک کر ڈراتی ہیں۔ پانچ سو سے زائد لوگوں کے قاتل کراچی میں موجود ہیں۔ مصطفیٰ کمال چاہتے ہیں کہ انہیں عام معافی دے دی جائے جب کہ فاروق ستار نہ انہیں سمجھتے ہیں اور نہ اپنا، پیپلز پارٹی کی حکومت کے خیال میں کراچی میں زیادہ تر زمین کے جھگڑے ہیں۔ واہ کیا خوبصورت تجزیہ ہے۔ یعنی ٹارگٹ کلنگ کا سبب بھی زمینیں ہیں۔ بھتہ خوری کی وبا بھی انہی کے سبب پھیلی ہے۔ دہشت گردی کا موجب بھی یہی ہیں۔اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ سارا جھگڑا مال کا ہے۔ سنا ہے اسی مال کی کارکردگی کی وجہ سے دبئی میں اربوں کی انوسٹمنٹ ہوئی ہے۔
سونے کی تلاش میں نکلے ہوئے مسافر خزانوں کو حاصل کرنے کے بعد بھی خزانے ڈھونڈتے رہتے ہیں کیونکہ تلاش کی کوئی انتہا نہیں یہ کن کے عمل جیسی ہے۔نہ تھکتی ہے نہ رکتی ہے بس چلتی رہتی ہے۔میں اسے کہاں سے لاؤں جس نے کہا تھا۔میرے بینک میں جتنے پیسے ہیں وہ بھی نکلوا کر غریبوں میں تقسیم کر دو۔ تا کہ اس گندگی سے جان چھوٹ جائے، لاؤ میں چیک پر دستخط کردوں۔ اس نے بلینک چیک پر دستخط کیے اور تمبورے پرگاتے ہوئے فقیرسے شاہ حسین کی یہ کافی سننے لگا۔
سجنا اساں موریوں لنگھ پیوسے
بھلا ہویا گڑ مکھیاں کھادا اساں بھن بھن توں چھٹیوسے
ڈھنڈ پرائی کتیاں لکی اسں سر منہ دھتو سے
کہے حسین فقیر نمانڑاں اساں ٹپن ٹپ نکلوسے
پاکستان کی معیشت کا ستر فیصد حصہ کراچی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ جب تک کراچی کے حالات ٹھیک نہیں ہوتے پاکستان کی معیشت میں بہتری نہیں آسکتی۔ سو افواجِ پاکستان کو سب سے زیادہ توجہ کراچی پر دینا چاہئے۔

تازہ ترین