• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلی مثال:چند سال پہلے ایک ٹی وی چینل کو رمضان المبارک کی نشریات کے لئے اینکر کی ضرورت ہوئی، چند معروف ناموں کی چھانٹی کے بعد قرعہ ایک باریش اور صالح اینکر کے نام نکلا، وہ صاحب اس قدر نیک تھے کہ انہوں نے رمضان ٹرانسمیشن کے پیسے لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں یہ نشریات فی سبیل اللہ کروں گا، خدا کا کلام پڑھوں گا اور رمضان کے بابرکت مہینے میں لوگوں کو نیکی کی ترغیب دوں گا۔ چینل انتظامیہ کی لاٹری نکل آئی، فوراً ہامی بھر لی گئی۔ مگر اس سے پہلے کہ معاہدہ پر دستخط ہوتے اُن نیکوکار نے اپنی ایک ’’چھوٹی‘‘ سی شرط پیش کی اور کہا کہ بے شک میں اِس کام کے پیسے نہیں لے رہا مگر آپ لوگ مجھے تین کروڑ (شاید کچھ کم زیادہ)روپے بطور قرضہ حسنہ دے دیں اور جب رمضان ٹرانسمیشن چلے تو اشتہارات کی مد میں جو آمدن آپ کو ہو، مثلا ً چار یا پانچ کروڑ، تو اس میں سے تین کروڑ کا قرضہ مجھے معاف کردیں، یوں آپ کو منافع ہو جائے گا، میں سود سے بچ جاؤں گا اور رمضان ٹرانسمیشن کے پیسے بھی میرے اکاؤنٹ میں نہیں آئیں گے۔ چینل نے یہ معاہدہ کر لیا اور اُن صاحب کو کروڑوں روپے ’’قرضے‘‘ کی مد میں دے کر معاف کر دئیے گئے۔
دوسری مثال:خلیفہ ہارون الرشید کا دل ایک لونڈی پر آگیا، لونڈی بے حد خوبصورت تھی مگر مصیبت یہ آن پڑی کہ وہ لونڈی ہارون الرشید کے باپ کے تصرف میں بھی رہ چکی تھی سو شریعت کی رو سے اب خلیفہ کے لئے وہ حرام تھی۔ ہارون الرشید اس بات پر بے حد تڑپا اور سوچا کچھ تدبیر کی جائے، اپنے فقیہہ سے اُس نے مشورہ لیا کہ کوئی حل نکالو، اُس نے کہا کہ یہ بات آپ کو کس نے بتائی کی وہ لونڈی آپ کے والد کی خدمت کر چکی ہے، ہارون الرشید نے کہا کہ خود اُس لونڈی نے یہ بتایا ہے، اس پر فقیہہ نے کہا کہ شریعت میں لونڈی کی گواہی قابل قبول نہیں ہوتی سو آپ بے فکر ہو کر اسے اپنے تصرف میں لائیں، جیسے جی چاہے!
تیسری مثال:ایک شخص نے اپنی بیوی کو شریعت کے مطابق تین طلاقیں دے دیں، طلاق دینے کے بعد پچھتایا کہ بہت برا کیا، دوبارہ بیوی کے ساتھ نکاح پڑھوانے گیا تو مولوی صاحب نے کہاکہ یہ نکاح نہیں ہو سکتا اور سند کے طور پر سورۃ البقرہ کی آیت ۲۳۰ پڑھ کر سنائی :’’پھر اگر اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اس کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کے ساتھ نکاح کر لے، پھر اگر وہ (دوسرا شوہر) بھی طلاق دے دے تو اب ان دونوں (یعنی پہلے شوہر اور اس عورت)پر کوئی گناہ نہ ہوگا اگر وہ (دوبارہ رشتہ زوجیت میں) پلٹ جائیں بشرطیکہ دونوں یہ خیال کریں کہ( اب )وہ حدود الہی قائم رکھ سکیں گے، یہ اللہ کی (مقرر کردہ) حدود ہیں جنہیں وہ علم والوں کے لئے بیان فرماتا ہے۔‘‘ یہ آیت سُن کر وہ شخص بہت پریشان ہوا اور مولوی صاحب سے اس کا حل پوچھا، مولوی صاحب نے جھٹ پٹاری سے حلالے کا حل نکال کر پیش کیا اور فرمایا ایک دن کے لئے بیوی میرے نکاح میں دے دو، کل آ کر واپس لے جانا، پھر نکاح ہو جائے گا، ہنسی خوشی رہنا۔
یہ تینوں مثالیں ’’حیلے‘‘ کی ہیں، فقہا اسے کتاب الحیل کا نام دیتے ہیں، الحیل یعنی حیلے کی جمع ، یہ کوئی کتاب نہیں بلکہ اُس ترکیب کی طرف اشارہ ہے جو لوگ مختلف صورتحال میں خواہش نفسانی کی تکمیل کے لئے استعمال کرتے ہیں ، بظاہر دین کی حدود اور احکامات کے اندر رہتے ہوئے مگر اصل میں دین کی روح کے خلاف !جیسے ایک مشہور نعت خواں کہتےہیں کہ میں نعت پڑھنے کے پیسے نہیں پکڑتا ، یہ بات اُن کی تکنیکی اعتبار سے درست ہے ، مگر اصل میں جھوٹ ہے کیونکہ نعت پڑھنے کے پیسے اُن کا سیکریٹری پکڑتا ہے ۔پہلی مثال بھی حیلے کی ہے جس میں باریش اینکر نے رمضان ٹرانسمیشن کے پیسے بھی لئے اور حیلے سے یہ تاویل بھی گھڑی کہ یہ تو قرضہ حسنہ تھا جو معاف ہو گیا۔ خلیفہ ہارون الرشید نے بھی یہی حیلہ کیا، جانتے بوجھتے ہوئے اُس لونڈی کو اپنے تصرف میں لایا جو اُس کے باپ کی تھی۔ اسی قسم کے حیلے اکبراعظم کے لئے اُس کے درباری فقہا نے ایجاد کئے جس میں اُس کے لئے بیک وقت چار سے زائد شادیوں کی گنجائش قرآن کی آیت کو توڑ مروڑ (نعوذ بااللہ ) کر نکال لی۔ حیلے کی بدترین مثال حلالہ ہے، اِس کے بارے میں رسول اللہﷺ کا فرمانا ہے کہ یہ لوگ (حلالہ کروانے والے) کرائے کے سانڈ ہیں (مفہوم)۔ قران کا حکم اِس میں واضح ہے کہ اگر شوہر اپنی بیوی کو تین مختلف اوقات میں طلاقیں دے تو طلاق ہو جاتی ہے اور اُس کے بعد رجوع کرنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی سوائے اس کے کہ بیوی کسی اور کے نکاح میں آئے اور اس کے ساتھ رہے، پھر کسی وجہ سے دوسرا شوہر بھی طلاق دے یا فوت ہو جائے تو بیوی اگر چاہے تو اپنے پہلے شوہر سے نکاح کر سکتی ہے، مگر یہ سب کچھ کسی سوچے سمجھےمنصوبے کے تحت ایک دو دن کے لئے حلالہ کے طور پر کیا جائے تو قطعا ً جائز نہیں اور اُس صورت میں حیلہ کہلائے گا۔ نکاح کے باب میں ایک مثال وقتی نکاح کی بھی ہے، کچھ لوگو ں کا خیال ہے کہ اگر کوئی عورت اور مرد چاہیں تو دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کرکے ایک مخصوص مدت کے لئے نکاح کر سکتے ہیں، یہ مدت چند گھنٹوں سے لے کر کئی برس تک بھی ہو سکتی ہے، بظاہر یہ نکاح ہی کہلاتاہے بلکہ حقیقت میں بھی نکاح ہی ہوتا ہے کیونکہ پوشیدہ نہیں رکھا جاتا اور گواہان بھی اس میں شریک ہوتے ہیں مگر نہ جانے کیوں پہلی بیوی کا اِس کو پتہ نہیں چلتا، سو اِس بارے میں اگر پوچھنا ہو کہ یہ حیلہ ہے کہ نہیں، پہلی بیوی سے ہی رجوع کرنا چاہئے۔
آج کل حیلے کی ایک نئی قسم سامنے آئی ہے، گالیاں دینے کی۔ گالیاں بھی ایسی ویسی نہیں، فحش اور ننگی گالیاں، وہ بھی دین کی آڑ میں۔ حیلہ ایجاد کرنے والوں نے اس کے لئے دین سے حوالے ڈھونڈے ہیں۔ بندہ اِن سے پوچھے کہ کیا دین کی روح اِن فحش گالیوں سے تعبیر ہے؟ کیا معاذ اللہ تفاسیر میں اس قسم کا بیان ہے؟ کیا ہمارے جید علمائے کرام نے اس شریعت کی پیروی کی تھی؟ کیا اولیائے کرام نےاِن تعلیمات کی ترویج کی تھی؟ اگر نہیں تو پھر یہ سب گالم گلوچ اور اس کی تاویلیں سوائے حیلے کے اور کچھ نہیں۔
اپنی روز مرہ زندگی میں بھی ہم حیلے بہانوں سے کام لیتے ہیں۔ عام آدمی کے پاس حیلہ ہے کہ جب حکومت کام نہیں کرتی تو وہ کیوں کرے، بزنس مین کے پاس حیلہ ہے کہ جب گورننس نام کی چیز ہی نہیں تو وہ ٹیکس کیوں دے، بیوروکریٹ کے پاس حیلہ ہے کہ انسداد بدعنوانی کے ادارے ہی اسے کام نہیں کرنے دیتے، سول حکومت حیلہ کرتی ہے کہ اُس کے پاس کوئی اتھارٹی ہی نہیں رہی تو وہ کیا خاک ڈیلیور کرکے دکھائے جبکہ جمہوریت پر شب خون مارنے والوں کے پاس حیلہ ہوتا ہے کہ جب سول حکومت کام نہ کرے، کرپٹ ہو، ڈیلیور نہ کرے اور ملکی مفادات کا سودا کردے تو اس کا بوریا بستر لپیٹ دینے میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ باپ کے تصرف میں آئی ہوئی لونڈی کی طرح سول حکومت کی گواہی بھی قابل قبول نہیں ہوتی۔

تازہ ترین