• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اصول کےطور پر یہ بات ذہن میں رکھیں کہ خارجہ پالیسی اور خارجہ تعلقات میں نہ مستقل دوست ہوتے ہیں اور نہ ہی مستقل دشمن۔ دوستی اور د شمنی ملکی مفادات کے تابع ہوتی ہے اورجب مفادات کا ٹکرائو ہوتاہےتو نہایت قریبی دوستی دشمنی میں بدل جاتی ہے۔ اسی طرح مشترکہ دشمن بعض اوقات قوموں کو ایک دوسرے کےقریب لے آتے ہیں۔ مطلب یہ کہ خارجہ تعلقات کا مقصد ملکی مفادات کا حصول ہوتاہےچنانچہ تعلقات قومی مفادات کے تحت بدلتے رہتے ہیں۔ اسی طرح خارجہ پالیسی کی تشکیل میں جغرافیہ اہم رول ادا کرتاہے۔ اگر آپ اپنی 70سالہ قومی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو اس نتیجے پرپہنچیں گے کہ ہمارے لئے سب سے اہم فیکٹر بھارت رہاہے جس کے ساتھ ہمارا طویل بارڈرمشترک ہے اور جس نے دل سے کبھی تقسیم ہند اور قیام پاکستان کو قبول نہیں کیا۔ شاید بھارتی پالیسی طویل قومی سفر کےدوران وقت کے گردو غبار تلے دب جاتی لیکن مسئلہ کشمیر نے دونوں ملکوں کے درمیان مخاصمت اور دوری کوزندہ رکھا ہے۔ اسی مخاصمت کانتیجہ 1965کی جنگ تھی اور اسی 1965کی جنگ کا بدلہ بھارت نے 1971میں لیا اور بنگلہ دیش کوقائم کرکے آزادی کا علمبرداربن بیٹھا۔ آغاز ہی سے بھارت کے مخاصمانہ رویے نے پاکستان کو عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کر رکھا ہے۔ میں جب اپنی 70سالہ تاریخ پر نگاہ ڈالتا ہوں تویہ عدم تحفظ کا احساس ساری تاریخ پر چھایا نظر آتا ہے۔ گویا یہ ہمسائیگی ایک لحاظ سے ہماری سب سے بڑی بدقسمتی تھی جس نے آج تک ہمیں چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔ میاں نواز شریف سمیت بہت سے حکمرانوں نے ہندوستان سے تعلقات بہتر بنانے اور ماحول کو پرامن بنانے کی کوششیں کیں لیکن ان میں سے کوئی لیڈربھی نہ تاریخ کادھارا موڑ سکتا تھا اور نہ ہی کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ چنانچہ ایسی کوششیں عسکری حلقوں میں مشکوک ٹھہریں اور عدم استحکام کا باعث بنیں۔ امریکہ سے دوستی، قربت اور کبھی کبھار امریکی مفادات کے ہاتھوں میں کھیلنا اور ان کی تابع فرمانی بھارتی مخاصمت کے سبب پاکستان کی ضرورت بن گئی اور پھرہماری خارجہ پالیسی کا ستون ٹھہری۔ امریکہ سے تعلقات ہماری ضرورت صرف بھارتی عزائم کی وجہ سے بنی ورنہ صورتحال یکسر مختلف ہوتی۔ یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے۔ اکثر کالم نگار اورتجزیہ نگار تواتر سے لکھتے اور کہتے چلے آتے ہیں کہ ہمارے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے روسی دعوت نامہ مسترد کرکے امریکہ کا دورہ کیا۔ یوں ہمارا جھکائو امریکہ کی طرف ہوگیا۔ یہ بات تحقیق سے ثابت ہوچکی ہے اور محترم ریاض سید اپنی کتاب ’’سفارت نامہ‘‘ میں تفصیل سے بتا چکے ہیں کہ روس کا دعوت نامہ حکومت ِ پاکستان نے قبول کرکے دورے کی تیاریاں شروع کردی تھیں لیکن بعد ازاں روس نے رویہ بدل لیا اور بار بار کہنے کے باوجود لیاقت علی خان کے دورے کے لئے تاریخ نہ دی۔ چنانچہ مجبوراً لیاقت علی خان کو امریکی دعوت نامہ قبول کرکے امریکہ جانا پڑا ورنہ ان کا ارادہ پہلے روس کا دورہ کرنے کا تھا۔ بلاشبہ امریکہ 70سال قبل بھی ایک رئیس ملک تھا، سپرپاور تھی اور سائنس و ٹیکنالوجی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی۔ پھر قیام پاکستان سے قبل ہندوستان میں امریکی سفیر قائداعظم سے مل کر نہ صرف قیام پاکستان کی حمایت کرتا رہتا تھا بلکہ نوزائیدہ قوم کے لئے اچھی تمنائوںکااظہار بھی کرتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد آپ امریکی سفیر کی وہ تصویردیکھیں جس میں وہ اپنے کاغذات گورنر جنرل پاکستان کو پیش کر رہا ہے تو آپ ششدر رہ جائیں گے۔ امریکی سفیر کاغذات پیش کرتے ہوئے اس قدر جھکا ہوا ہے کہ بالکل حالت ِرکوع میں لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خزانہ خالی اوروسائل کے قحط کے سبب قیام پاکستان کے فوراً بعد قائداعظم نے امریکہ سے قرض (Loan) مانگا تھا لیکن امریکہ ٹال گیا۔ سفارتی عزائم سے پیدا کردہ عدم تحفظ نے پاکستان میں اسلحے اور فوجی امداد کی شدید خواہش پیدا کی جس نے ہمارے حکمرانوں کی نگاہیں امریکہ پر مرکوز کردیں۔ میں واشنگٹن پیپرز (خفیہ کاغذات، جنہیں اب اوپن کردیا گیا ہے) کا مطالعہ کرتے ہوئے حیران رہ گیا کہ اگست 1952میں پاکستان کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے کابینہ سے منظوری لئے بغیر واشنگٹن میں تعینات ملٹری اتاشی کے ذریعے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے براہ راست خط و کتابت شروع کردی اور اسلحے اور فوجی امدادکے حصول کے لئے درخواستیں دینے کا سلسلہ شروع کردیا۔ تحقیق کے مطابق جنرل ایوب خان کو گورنر جنرل غلام محمد کی اشیرباد حاصل تھی لیکن یہ ساری کارروائی کابینہ سے بالا بالا کی جارہی تھی۔ اسی ضرورت کے تحت بالآخر پاکستان نے 1954میں سیٹو اور سینٹو جیسے امریکی دفاعی معاہدے جوائن کرکے اپنی آزادانہ اور غیروابستہ حیثیت ختم کردی۔ تاریخ کو اختصار کے سانچے میں ڈھالتے ہوئے یہ کہنا کافی ہوگا کہ 1954سے لے کر آج تک امریکہ ہمیں استعمال کرتا رہا ہے اور ہم اپنی بساط کے مطابق امریکہ کو استعمال کرتے رہیںگے۔ قدرتی بات ہے کہ دوران تعلقات اتار چڑھائو اور قربت اوردوری کا شکار ہوتے رہتے ہیں مگر سپرپاور ہونے کے ناطے امریکہ کو ہمیشہ Upper Hand حاصل رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد تعلقات نے ایک نئی کروٹ لی ہے جس میں افغانستان توجہ کا مرکز بن گیا ہے اور امریکہ نے افغانستان سے مستقل مفادات وابستہ کرلئے ہیں۔ میں نے آغاز میں ہی عرض کیا تھاکہ قوموں کے درمیان تعلقات اپنے اپنےمفادات کے تابع ہوتے ہیں۔ اس عرصے میں جہاں امریکہ پاکستان کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتارہا ہے وہاں پاکستان بھی اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ بش سے لے کر اوبامہ تک امریکہ کا مطالبہ تھاکہ حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کو ختم کرو جبکہ پاکستان کے بالائی پالیسی ساز محسوس کرتے تھے کہ یہ پاکستان کے اثاثے ہیں۔ ایک دن امریکہ کو افغانستان سے جانا ہے اور پھر افغانستان کو پاکستان کاحلیف اور قریبی دوست بنانے کے لئے قابل اعتماد ’’اثاثوں‘‘ کی ضرورت ہوگی۔ افغانستان کے موجودہ حکمران اور امریکہ انہیں اپنا دشمن جانتے ہیں اور ان پر بھارتی سوچ بھی حاوی ہے کیونکہ بھارت افغانستان میں مستقل پائوں جما کر پاکستان کو دو اطراف سے گھیر لینا چاہتا ہے۔ مفادات کے اس ٹکرائو میں جھوٹ اور دھوکے کے ہتھیاربھی استعمال کئے جاتے رہے ہیں۔ کئی برس قبل میں نے ایک امریکی تھنک ٹینک کے سربراہ سے پوچھا کہ آپ پاکستان پر بھروسہ کیوں نہیں کرتے جو آپ کی جنگ لڑ رہاہے۔ اس نے مسکرا کر جواب دیا کہ ہم نے جب بھی پاکستان سے انٹیلی جنس شیئرنگ کی اور کارروائی کرنے سےپہلے ہدف کارازدیا ہمارا ہدف فوراً جگہ بدل لیتاتھا کیونکہ پاکستانی ایجنسیاں انہیں بروقت اطلاع دے دیتی تھیں۔ اب بھی ایسا ہی معاملہ ہے کہ پاکستان کہتا ہے ہم نے حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کو افغانستان میں دھکیل دیا ہے۔ امریکہ ہم سے انٹیلی جنس شیئرنگ کرے ہم خود ان کو نشانہ بنائیں گے۔امریکہ ماضی کی روشنی میں انٹیلی جنس شیئرنگ کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہی ہماری بات مانتا ہے کہ یہ نیٹ ورک پاکستان میں موجود نہیں کیونکہ امریکہ کے ٹیکنیکل ذرائع (سیٹلائٹ وغیرہ) اورخفیہ ایجنسیاں تصدیق کرتی ہیں کہ ان کے دشمن یہاں موجود ہیں۔ بش اور اوبامہ مصلحت پسند تھے جبکہ ٹرمپ منہ پھٹ اور اکھڑ ہے۔ ٹرمپ اپنی کمان سے مزید پابندیوں کے تیر بھی نکال سکتا ہے اور کچھ عملی اقدامات بھی کرسکتا ہے۔ امریکہ نے گفتگو کے دروازے بند نہیں کئے۔ چند روز قبل امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر نے ہمارے آرمی چیف کو فون کیا تھا۔ اندرونی عدم استحکام، قرضوں میں جکڑی معیشت اور خارجی خطرات کے پیش نظر پاکستان کےلئے یہی مناسب ہے کہ وہ امریکہ سے مل کر لائحہ عمل بنائے، واشنگٹن میں دوست حلقے اور لابی بنائے، بین الاقوامی فورم پرزوردار انداز سے اپنا نقطہ نظر، دہشت گردی کے خلاف کامیابیاںاور قربانیاں پیش کرے۔ رائے عامہ میں آگاہی کے لئے بین الاقوامی میڈیا میں مہم شروع کرے اور امریکہ سے گفتگو جاری رکھے۔ کچھ ایسے عناصر کے لئے جن پر دہشت گردی کی مہر لگ چکی ہے ملکی ترقی و استحکام کو دائو پر لگانا کوئی عقل مندی نہیں۔ اثاثوں کوبھی یہ بات سمجھائی جاسکتی ہے۔اس موقع پر وہ چینی کہاوت یاد رکھیں کہ ’’جب طوفان آئے تو لچکدار شاخ کی مانند ’’لچک‘‘ جائیں اور جب طوفان گزر جائے تو اپنی جگہ پر واپس آجائیں۔‘‘ طوفان وقتی ہوتے ہیں نقصان اٹھائے بغیر انہیں گزرنے دینا ہی حکمت کہلاتی ہے۔

تازہ ترین