• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک اور دل ہلا دینے والا واقعہ۔ ایک اور کمسن بچی کا اغوا، اُس معصوم کے ساتھ زیادتی اور پھر اُس کا بیہمانہ قتل۔ اس سے بڑا اور کیا ظلم ہو سکتا ہے؟ اُس معصوم جان پر کیا قیامت گزری ہو گی۔ اُس کے ماں باپ کس طرح اس صدمہ کو برداشت کر یںگے ؟؟ وہ کیسے اُس ظلم پر صبر کر پائیں گے جس کا شکار اُن کی سات سالہ پھول جیسی زینب کو بنایا گیا۔ جس کسی نے اس واقعہ کے بارے میں سنا انتہائی رنجیدہ ہوا۔ یہ واقعہ قصور میں ہوا۔ اس سے پہلے اسی شہر میں ایک سال کے دوران مبینہ طور پر کئی اور کم سن بچیوں کو ایسے ہی اغوا اور زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔ چند سال پہلے لاہور میں بھی ایک پانچ سالہ بچی کے ساتھ بھی ایسا ہی ظلم ہوا۔ پورے ملک میں ایسے واقعات کی تعداد کتنی ہے مجھے نہیں معلوم لیکن کیا ان واقعات میں ملوث کسی مجرم کو سزا ملی؟؟ ہمیشہ کی طرح اس واقعہ پر بھی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ملوث ملزما ن کو جلد از جلد گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ ایسے کتنے سفاک درندوں کو ماضی کے واقعات کے نتیجے میں کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔ زینب کے اغوا، اُس کے ساتھ زیادتی اور قتل کرنے والے اگر گرفتار ہو گئے تو اُنہیں نشان عبرت کیسے بنایا جائے گا؟؟ کیا ہمارا نظام عدل ایسا ہے کہ گھناونے سے گھناونے جرم میں ملوث اور بڑے سے بڑے مجرم کو نشان عبرت بنایا جا سکے تاکہ معاشرہ میں موجود مجرمانہ ذہن رکھنے والوں کے دل میں ڈر پیدا ہو اور جرائم کو روکا جا سکے۔ کیا آرمی پبلک اسکول پشاور میں شہیدکیے گئے ایک سو چالیس سے زیادہ بچوں کے قاتلوں کو ایسے سزا دی گئی کہ وہ نشان عبرت بنیں؟ کیا کراچی بلدیہ فیکٹری میں جلا کر مارے جانے والے تین سو افراد کے قاتلوں کو عبرت کا نشان بنا دیا ہے؟؟ میں پہلے بھی یہ کہہ چکا اور اب دوبارہ یہ مطالبہ کر رہا ہوں کہ گھناونے اور سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کو اسلامی اصولوں کے مطابق سرعام سزائیں دی جائیں لیکن میری یہ بات کسی نے نہ سنی۔ کیوں نہ زینب کے قاتلوں سے ہم اسلامی سزائوں کا آغاز کریں اور ان درندوں کو سرعام پھانسی دی جائے اور اُ ن کی لاشوں کو دو تین دن تک قصور شہر کے اہم چوراہے پر لٹکتاچھوڑدیا جائے تاکہ وہ صحیح معنوں میں نشان عبرت بن سکیں۔ تا کہ ایسے درندوں کو دوسروں کے لیے مثال بنایا جا سکے اور معاشرہ کو ایک پیغام دیا جائے کہ جو کوئی ایسے گھنائونے جرم میں ملوث پایا گیا اُس کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہو گا۔ زینب کے ساتھ جو ہوا اُس پر ہمارے تمام سیاسی رہنمائوں اور حکمرانوں کی طرف سے سخت مذمتی بیان جاری ہوئے۔ یہ بھی کہا گیا کہ قاتلوں کو نشان عبرت بنایا جائے گا۔ تو میرا سوال ہے نواز شریف شہباز شریف سے، عمران خان اور بلاول بھٹو سے، وزیر اعظم سے، چیف جسٹس سے اور دوسرے ذمہ داروں سے کہ کیا وہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں زینب کو اغوا، اُس معصوم کے ساتھ زیادتی کرنے اور اُسے قتل کرنے والے سفاک مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کا فیصلہ کریں گے؟؟ مجھے اس بات کا علم ہے کہ حکمرانوں، سیاستدانوں اور ذمہ داروں کی ایک بڑی تعداد اسلامی سزائوں کے حق میں ہے لیکن وہ مغربی دنیا، این جی اوز اور میڈیا کے ڈر سے اسلام کے نام پر قائم ہونے والے پاکستان میں اسلامی سزائوں پر عمل درآمد نہیں کرتے اور یہ وہ بنیادی وجہ ہے کہ جرائم میں ہمارے ہاں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور سفاکی بڑھتی جا رہی ہے لیکن ان سب کو کوئی روکنے والا نہیں۔ ہم نے تو مغربی دنیا کو خوش کرنے کے لیے موت کی سزا پر ہی عمل درآمد کئی سال تک روکے رکھا۔ ہم کہتے تو اپنے آپ کو مسلمان ہیں لیکن اسلامی سزائوں کے نفاذ سے گھبراتے ہیں ۔ اپنے رب سے ڈرنے کی بجائے مغربی دنیا سے ڈرتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو پولیس اور عدالتی نظام میں بھی بہت خرابیاں ہیں جن کی وجہ سے مجرم طاقت ور اور سفاک جبکہ مظلوم بے بس بنتےجا رہےہیں ہے۔ پہلے تو مجرم پکڑا نہیں جاتا، پکڑا جائے تو چھوٹ جاتا ہے ۔ کسی کو سزا مل بھی جائے تو معاشرہ کو سزا ہوتے نظر نہیں آتی جس کی وجہ سے جرائم روز بروز اپنی سنگینی کے ساتھ بڑھتے نظر آتے ہیں۔ اب تو بیٹا ماں کو قتل کر کے اُس کی لاش کو جلا دیتا ہے، بہن اپنی سگی بہن کو چھری سے ذبح کر کے قتل کردیتی ہے، اونچے گھرانوں کے بچے زرا زرا سی بات پر دوسروں کو سرعام قتل کر دیتے ہیں اور جب پکڑے جائیں تو بجائے شرمندگی اور پچھتاوے کے ٹی وی کیمرے کے سامنے ہنستے ہیں۔ اس بڑھتی ہوئی سفاکی کا علاج صرف یہی ہے کہ سنگین جرائم کے مجرموں کو اسلامی اصولوں کے مطابق سرعام چوکوں چوراہوں پر لٹکایا جائے اور یہی نشان عبرت بنانے کا یقیناً بہترین طریقہ ہے۔

تازہ ترین