• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسپکٹر جنرل جان ایف سویل کی رپورٹ میں کانگریس کو بتایا گیا ہے کہ افغان حکومت کا صرف 30 فیصد علاقے پر کنٹرول ہے جبکہ 70فیصد علاقوں پر طالبان قابض ہیں، جب کہ پاکستان نے نوے فیصد دہشت گردی پر کنٹرول کر لیا ہے۔ بے شک پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر جو دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہوا تھا الحمدللہ وہ بڑی حد تک اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔ وہ وقت بھی تھا جب لوگ سنسان مقبروں کی طرح دکھائی دینے لگے تھے۔ہر شخص خوف کی حالت میں لگتا تھا۔ وزیر داخلہ یہی کہتے رہتے تھے کہ کچھ لوگ اپنے جسموں سے بارود کے ڈھیر باندھ کے گھروں سے نکل آئے ہیں۔ شمال جہاں برف پگھلتی تھی اور ٹھنڈے پانی کی بل کھاتی ہوئی ندیاں زندگی کو سیراب کیا کرتی تھیں وہاں آگ کے دریا بہنے لگے تھے۔ مذہب کے نام پر موت کا کھیل جاری تھا۔ فتح کیلئے ہر ناجائز عمل جائز قرار دے دیا گیا تھا۔ کچھ لوگ ہر حال میں جیتنا چاہتے تھے۔ ہارنے کا حوصلہ کسی میں بھی نہیں۔ میاں محمد بخش کا ایک مصرعہ یاد آ رہا ہے۔ جتن جتن ہر کوئی کھیڈے، ہارن کھیڈ فقیرا‘‘ یہ تو فقیروں کی باتیں ہیں۔ مگر اب تو فقیر بھی کم کم دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اور لوگ ہوتے تھے جو بادشاہ وقت کو کاغذ کے پرزے پر لکھ کر بھیج دیا کرتے تھے۔ کہ کیا تم چاہتے ہو کہ ہم دلی کا تخت کسی اور کے حوالے کر دیں۔ تخت دلی کا ہو یا اسلام آباد کا، سچائی کی عالمگیر جنگ تاریخ کے ایوانوں میں کبھی رکی نہیں۔ تلوار یں بجتی رہیں ڈھالیں ٹوٹتی رہیں۔ نیز کی انیوں پر سربلند ہوتے رہے۔ فقیری اور بادشاہی میں بھی تو بڑا باریک سا پردہ ہوتا ہے۔ بادشاہ کے فقیر ہونے میں اور فقیر کے بادشاہ ہونے میں کچھ زیادہ دیر نہیں لگتی۔ فقیر تو مزاجاً ہوتے ہی بادشاہ ہیں اور بادشاہ اگر اپنے اندر کے فقیر کو مار ڈالیں تو چنگیز اور ہلا کو بن جاتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ فقیر کئی بار بادشاہ بن گئے اور کئی بار بادشاہوں کو فقیری نے اپنے دامن میں پناہ دے دی۔ فقیر کے تکیے اور بادشاہ کے تخت میں بھی مماثلت پائی جاتی ہے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں جو بھی شخص بادشاہ بنتا ہے وہ اپنے اندر کے فقیر کو مارڈالتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو صرف ’’اونچے دروازوں‘‘ کیلئے مختص کر لیتا ہے۔ موریوں سے گزرنا بھول جاتا ہے۔ ان ’’موریوں‘‘ سے جن کے بارے میں سلطان باہو نے کہا تھا ’’مذہباں دے دروازے اُچے راہ ربانا موری ہو‘‘ یعنی مذاہب کے دروازے اونچے ہیں اور اللہ کا راستہ ’’موری‘‘ یعنی عام لوگوں کے گزرنے والا چھوٹا سا در ہے) شاہ حسین نے جب مجذوبیت اختیار کی اور ملامتی صوفیوں میں شامل ہوگیا تھا توشہر کے بڑے دروازوں سے گزرنا چھوڑ دیا۔ عام لوگوں کے گزرنے کیلئے جو چھوٹی چھوٹی موریاں ہوتی تھیں، ان سے گزرنا شروع کر دیا اور یوں پکار اٹھا۔ ’’سجناں اساں موریوں لنگھ گیوسے، بھلا ہو یا گڑ مکھیاں کھادا، اساں بھڑ بھڑ تو چھٹوسے، ڈھنڈ پرائی کتیاں لکی، اساں پر نہ منہ دھتوسے، کہے حسین فقیر نمانڑاں، اساں ٹپن ٹپ نکلوسے۔سرائیکی کے معروف شاعر افضل عاجز نے اسی خیال کو اس طرح ادا کیا ہے۔ ’’اے لمبا چوڑا مہاٹا تاں وڈیراں کون ہیں اپنی وستی دی حویلی وچ کوئی موری رکھوں‘‘
سو اس وقت مسئلہ مذاہب کے اونچے دروازوں سے گزرنے والوں کا ہے جو اپنے مذاہب کو محبت سے نہیں بارود سے پھیلانا چاہتے ہیں۔ پتہ نہیں یہ کیوں یاد نہیں آتا کہ آج سے چودہ سو سال پہلے محمدِ عربیؐ نے فرمایا تھا ’’جو تمہاری راہ میں کانٹے بچھاتے ہیں تم ان کی راہ میں کانٹے نہ بچھائو اس طرح تو دنیا کانٹوں سے بھر جائے گی اور کانٹوں میں جینا مشکل ہے اگر ہو سکے تو ان کی راہ میں پھول بچھاؤ کہ پھولوں کے جمال میں کھو کر وہ اپنی پرانی عادت بھول جائیں‘‘بہرحال میں تو اتنا جانتا ہوں کہ میں انسان ہوں۔ میرے لئے اس کائنات میں کوئی اجنبی نہیں۔ سب میرے بھائی ہیں۔ میں دنیا بھر میں طیاروں سے نکلنے والی ہلاکت پر نوحہ خواں ہوں چاہے وہ ہلاکت ڈرون طیاروں سے گرتے ہوئے بمبوں سے نکل رہی ہو۔یا مسافر طیاروں کے کاروباری میناروں سے ٹکرانے پرنمودار ہو رہی ہو۔ مجھے جسموں کیساتھ بارود باندھ کر اپنے گرد و نواح کو لوتھڑوں میں بدلنے والوں کا غم ہے۔ مجھے انسان کا غم ہے۔ یعنی اپنا غم ہے۔ میں، جس کا وطن کائنات ہے۔ جسکی قومیت آدمیت ہے۔ جسکا مذہب انسانیت ہے۔ جسکی زبان محبت ہے۔ میں ایک انسان ہوں۔ صرف انسان۔ میں زندہ رہنا چاہتا ہوں اور ہر شخص کو زندہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ بہرحال یہ طے ہے کہ ہم پاکستانیوں نے دہشتگردی کیخلاف جنگ جیت لی ہے۔

تازہ ترین