• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دور جدید کے غلاموں کیلئے قانون …!! امیگریشن قوانین … ڈاکٹر ملک کے ساتھ

اخبارات میں اکثر ایسی خبریں تواتر کے ساتھ شائع ہوتی رہتی ہیں جن میں گھریلو ملازمین کے ساتھ بہیمانہ سلوک کا ذکر ہوتا ہے۔ یہ ایک امر واقع ہے کہ ہمارے ہاں اکثریت گھریلو ملازمین کے ساتھ اچھا سلوک روا نہیں رکھتی ہے۔ حال ہی میں پاکستان میں ایسے چند واقعات ہوئے ہیں جن میں اعلیٰ عدالتوں کو مداخلت کرنا پڑی۔ مشہور شاعر احمد فراز نے بھی ایک گھریلو ملازمہ کے قتل پر ’’ملوکیت کے محل کی گناہ گار کنیز‘‘ کے عنوان سے ایک دردناک نظم بھی لکھی تھی۔ گھریلو ملازمین کے ساتھ ایسا سلوک کبھی کبھی برطانیہ میں بھی روا رکھا جاتا ہے۔ چند سال قبل ہمارے پاس ایک بھارتی نژاد لڑکی کا معاملہ آیا تھا جس میں کہ اس لڑکی کے آجر اسے سنٹرل لندن کے ایک فلیٹ میں بند کرکے پیرس چلا گیا جہاں پر اس نے اپنے دورانیہ میں اضافہ کردیا۔ چند دنوں بعد جب کھانے پینے کی اشیاء ختم ہوگئیں تو اس لڑکی نے کھڑکی کے قریب نصب شدہ بارش کی نکاسی کے لئے لگائے جانے والے پائپ سے نیچے اترنے کی کوشش کی تو وہ گر گئی جس سے اس کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔ جب بے چاری کو ہسپتال لے جایا گیا تو اوپر سے امیگریشن والے اسے ملک بدر کرنے کے لئے پہنچ گئے کیونکہ اس کا ویزا ختم ہوچکا تھا اور ایسا کوئی قانون نہیں تھا جس سے کہ اس کے ویزے میں توسیع کروائی جا سکے۔ اس معاملہ کو پریس میں لے جایا گیا جس کے باعث ہوم آفس نے گھریلو ملازمین کے لئے ایک ایمنسٹی نکالی اور قوانین میں تھوڑی سی نرمی کردی۔ اسی نوعیت کا ایک اور کیس ہمارے پاس آیا تھا جس میں کہ گھریلو ملازم کو گھر سے باہر، باغ میں نصب کردہ شیڈ میں رکھا گیا تھا جبکہ باہر برف پڑی ہوئی تھی۔ معاملہ کی صداقت کے لئے ہم نے خود اس ’’رہائش گاہ‘‘ کا معائنہ کیا تھا۔ اب بھی لوگ حیلے بہانوں سے اپنے ممالک سے غریب لوگوں کو یہاں لے آتے ہیں اور ان کا استحصال کرتے ہیں۔ گوکہ اب گھریلو ملازمین کو یہاں لانے کے قانون کو بہت ہی زیادہ سخت کیا جا چکا ہے۔ اگر کوئی گھریلو ملازم برطانیہ میں موجود ہے اور اس کے مالک یا آجر نے جان بوجھ کر اس کا ویزا ختم کروایا ہے (تاکہ وہ بھاگ نہ سکے اور متبادل ملازمت نہ کرسکے) اور ایسا شخص ہوم آفس میں کوئی درخواست دیتا بھی ہے تو مروجہ قانون کے تحت اس کی کوئی دادرسی نہیں ہوتی ہے بلکہ امیگریشن والے، کوئی قانون نہ ہونے باعث اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور ملک بدر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خاص کر خواتین کا زیادہ استحصال کیا جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک کیس برطانوی کورٹ آف اپیل میں لے جایا گیا جس میں کہ افریقی ملک گھانا سے ایک شخص کو طالب علم کے نام نہاد ویزا پر برطانیہ لایا گیا اور اسے غلام بنا کر اس سے غلاموں کا سا سلوک روا رکھا گیا۔ اس کے ویزا میں بھی توسیع نہیں کروائی گئی تاکہ یہاں پر غیرقانونی ہونے کی وجہ سے وہ بھاگ نہ سکے۔ بالآخر جب وہ بھاگنے میں کامیاب ہوا تو امیگریشن والوں نے اس کی درخواست مسترد کرکے اسے ملک بدر کرنے کی کوشش کی۔ یہ کیس برطانوی کورٹ آف اپیل تک جا پہنچا جہاں پر 13فروری کو فیصلہ دیا گیا جس میں کہ ہوم آفس کی خاص سرزنش کی گئی اور ہوم آفس کی Victims of modern slaveryکے بارے میں نافذ العمل پالیسی پر عدم اعتماد کرتے ہوئے اسے بالکل ہی غیرقانونی قرار دیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ ہوم سیکرٹری اس بارے میں اپنے فرائض کو بطریق احسن ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ کورٹ آف اپیل کے اس سخت فیصلہ کے بعد اب 21فروری کو ہوم آفس نے فی الفور ایک نئی پالیسی کا اعلان کردیا ہے جس کے تحت جدید غلامی کے شکار مظلوم افراد کو ہوم آفس کے صوابدیدی اختیار کے تحت یہاں پر رہنے کے لئے ایک Discretionary leaveدی جائے گی۔ اگر اس ضمن میں پہلے سے کوئی غلط فیصلہ کیا گیا ہے تو اس پر عملدرآمد فوری طور پر روک دیا گیا ہے۔ اگر کوئی شخص مرد یا عورت، یہ محسوس کرے کہ اسے صرف یہاں پر بیگار لینے یا کم داموں میں کام کروانے کے لئے کسی بھی ویزا یعنی طالب علم، شادی، وزٹ وغیرہ پر یہاں لایا گیا تھا اور ان کا استحصال ہوتا رہا ہے تو وہ بھی ہوم آفس کی اس نئی پالیسی سے استفادہ اٹھا سکتے ہیں۔ راقم نے اکثر ایسے واقعات کا مشاہدہ کیا ہے جن میں شادی کے نام پر خواتین کو برطانیہ لاکر ان کا استحصال کیا جاتا ہے اور ان سے بیگار لی جاتی ہے۔ اس معاملہ پر اگلے ہفتے کالم لکھا جائے گا۔

تازہ ترین