• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک بار پھر ہمیں دہری شہریت کا طعنہ سننا پڑا ہے۔ اس بار طعنے میں کچھ تحکّم کا عنصر شامل ہے اور کچھ تحقیر کا۔ طعنہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے منصفوں نے دیا ہے اور وہ بھی کچھ اس انداز میں کہ اچھا بھلا انسان خود کو قصور وار محسوس کرنے لگے حالانکہ ہم نے جب دہری شہریت اختیار کی تھی تو قانون میں اس کی پوری پوری اجازت تھی۔ حکومتِ وقت نے دوڑ دھوپ کر کے ہمیں یہ رعایت دلائی تھی۔ آج یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے وطن سے وفاداری نہیں نبھائی اور ہم تھوڑے نہیں، بہت غیر ہیں اور اگر ہمیں اپنی سرزمین پر آکر ووٹ دینے کا حق ملا ہے تو یوں جیسے ہمارے پھیلے ہوئے ہاتھ پر ذرا دور سے رکھا گیا ہے کہ کہیں یہ دو ہاتھ چھو نہ جائیں۔
یہاں دو باتیں کہنے کی ہیں۔
ایک تو یہ کہ جب ہم سے ملکہٴ برطانیہ اور ان کے جانشینوں کی وفاداری کا وعدہ لیا گیا تھا تو یہ ہرگز نہیں کہا گیا تھا کہ آج کے بعد آپ کی دوسری تمام وفاداریاں غارت ہوئیں۔ کتنے ہی ملکوں میں یہ شرط ہے کہ آپ ان کے وفادار بنیں تو پھر آپ کو دوسرے تمام ملکوں اور سرزمینوں سے اپنی وابستگی ترک کرنی ہوگی۔ یہ تو ہوا معاملے کا ایک رخ۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ ہم جس وطن کے پیدائشی وفادار ہیں اُس نے بھی ہم پر کوئی جبر نہیں کیا اور کوئی پابندی نہیں لگائی۔ ایک نہایت مہذّب اور متمدن ملک کے تاج سے وابستگی اختیار کرتے ہوئے ایک لمحے کو بھی احساس نہیں ہوا کہ ہم سے کوئی جرم سرزد ہو رہا ہے،کبھی ذہن سے یہ خیال تک نہیں گزرا کہ ایک سرکاری کاغذ پر دستخط کرتے ہی اپنی سرزمین سے ہمارے قدم اکھڑ جائیں گے۔
یہ تو ہوا معاملے کا قانونی پہلو۔ اس کا کوئی جذباتی پہلو بھی ہو گا مگر وہ چونکہ مستحکم دلیل نہیں بنتا، اس کو جانے دیتے ہیں۔ اس کا ایک طبیعاتی اور معالجاتی پہلو بھی ہے۔ ہم کتنے ہی برطانوی کہلائیں۔ اپنے کاغذات پُر کرتے ہوئے قومیت کے خانے میں مملکت انگلیشیہ چاہے جتنی بار لکھیں، ہماری رگوں میں دوڑنے پھرنے والا لہو چغلی ضرور کھاتا ہے۔ وہ یوں کہ ہمیں جتنی مرتبہ برطانیہ کے کسی اسپتال میں داخل ہونے اور علاج کرانے کا اتفاق ہوا، ہم سے یہ ضرور پوچھا گیا کہ اصل میں کس علاقے اور کس خطّے کے ہو؟ ہر مرتبہ اس سوال کے آگے ہم نے بڑی سہولت سے ’پاکستان‘ لکھا اور یہ جانتے ہوئے لکھا کہ اس مملکت میں جب تک جیئں گے، پاسپورٹ رہے یا نہ رہے، ہمارا تن بدن پاکستانی رہے گا۔ علم معالجات کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہماری جڑیں کہاں ہیں اور ہماری بنیادیں کدھر ہیں۔
شکر پڑیاں کے پچھواڑے اور مرگلہ کے سائے میں زندگی بِتانے والوں کو شاید پوری طرح اندازہ نہ ہو یا ممکن ہے تھوڑا بہت ہو کہ وطن سے محبت کا جو لاوا وطن سے دور جاکر پھوٹتا ہے اور وطن کی جو قدر سمندر پار جاکر زور مارتی ہے وہ کیفیت اس سرزمین پر رہتے ہوئے نہیں ہوتی، جس پر رہنا ہماری عادتِ ثانیہ بن جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جن دنوں پاکستان کے باشندوں نے برطانیہ کی طرف یلغار کی تھی اور میرے کئی ہم عمر دوست کراچی کو خیرباد کہہ کر انگلستان آگئے تھے تو اپنے ابتدائی خطوں میں وہ فرمائش کیا کرتے تھے کہ کچھ اردو کتابیں بھیج دو۔کچھ گانوں کے گراموفون ریکارڈ بھیج دو، کچھ اپنے گروپ فوٹو بھیج دو۔ میں کبھی نہیں بھول سکتا کہ ان دنوں سروں کے اوپر سے اڑتا ہوا کوئی پی آئی اے کا طیارہ نظر آجاتا تھا تو کھڑے ہو کر اس کو اس وقت تک دیکھا کرتے تھے جب تک وہ نگاہوں سے اوجھل نہیں ہو جاتا تھا۔ اس کیفیت سے میرے ہم وطن نہ اُس وقت واقف تھے ، نہ اب واقف ہیں۔
حال ہی میں وزیر اعظم صاحب لندن کے دولت مند علاقے مے فیئر میں جب اپنا کروڑوں کا فلیٹ دیکھنے آئے تھے تو پاکستانیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان میں حالات اُتنے خراب نہیں جتنے آپ سمجھتے ہیں۔ نادانی میں وہ ایک بڑا سچ بول گئے۔ پاکستان کے چھوٹے چھوٹے دکھ بھی یہاں انگلستان میں بیٹھ کر پہاڑ جیسے محسوس ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ دکھ اگر واقعتا پہاڑ جیسے ہوں تو ہم ہی جانتے ہیں کہ ہم پر یہ پہاڑ کیسے ٹوٹتے ہیں۔ ایسے ہی حالات میں کہیں سے ایک کمزور سی آواز اٹھتی ہے کہ سمندر پار آباد پاکستانیوں کو بھی ووٹ کا حق دیا جائے۔ یہ آواز کمزور اس لئے ہوتی ہے کہ یہاں دیانتداری سے ڈالے جانے والے چند لاکھ ووٹ وہاں دیانت کو ترستی ہوئی پرچیوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے بیلٹ بکسوں کے آگے شرمسار ہی ہوں گے کہ کسی کا کچھ بگاڑ نہیں پائیں گے۔
اس پر ایک مزے کی بات یاد آئی۔ غالباً انیسویں صدی میں جب تھرمومیٹر پہلے پہل برصغیر پہنچا تو ڈاکٹروں کو خیال ہوا کہ وہاں کے باشندوں کے منہ سے یہ لفظ کیونکر ادا ہوگا۔ جن لوگوں نے روضہٴ ممتاز محل کا نام بگاڑ کر تاج محل کردیا وہ تھرمو میٹر کا نام کیسے لیں گے۔ چنانچہ طے یہ پایا کہ یہ معاملہ لوگوں پر چھوڑ دیا جائے۔ دیکھیں وہ خود ہی اس کو کیا نام دیتے ہیں۔ لوگوں نے زیادہ دیر نہیں لگائی اور تپتے ہوئے بدن کا بخار ماپنے کے اس ولایتی آلے کو ’ تاپ ماپ‘ کہنے لگے۔
کبھی کبھی یونہی ذرا دل کو بہلانے کے لئے جو بے تکے خیالات آتے ہیں اُن ہی میں ایک خیال یہ بھی آیا کہ اگر محبت ماپنے کا کوئی آلہ ایجاد ہو جائے اور لوگ اسے ’پیار ماپ‘ کہنے لگیں تو اُسے ایک منٹ کے لئے دل سے لگا کر وطن کی محبت ناپی جائے، دیکھتے ہیں کس کا پارہ اوپر جاتا ہے۔ اسلام آباد والوں کا یا بریڈفورڈ، برمنگھم، مانچسٹر اور لندن والوں کا؟
تازہ ترین