• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ روز ہوئے لاہور کے کسی علاقے میں ایک کمسن بچّی پہلے روز اسکول جارہی تھی۔ راستے میں کسی بااثر شخص نے اُسے اُٹھایا، بھوکے بھیڑئیے کی طرح اسے بھنبھوڑا اور نیم مردہ حالت میں کہیں پھینک دیا۔ بچّی اسپتال میں بے سدھ پڑی تھی پھر کوئی خبر نہیں ملی کہ اس کا کیا حال ہوا لیکن وہ درندہ جس کے سر پر وحشت سوار تھی، اسکے بارے میں خبر ہو یا نہ ہو، اس کے متعلق یہ تو طے ہے کہ چند روز بعد سینہ تانے سڑکوں پر گھوم رہا ہوگا اور کسی نئی چھوٹی سی چڑیا کے وجود میں اپنے ناخن گاڑ رہا ہوگا۔ پنجاب کی پولیس اس معاملے میں مشہور ہے یا بدنام ہے، یہ طے کرنا مشکل ہے لیکن یہ طے کرنا آسان ہے کہ درندہ صفت لوگ کیوں دندناتے پھرتے ہیں۔ سبب یہ ہے کہ وقت کیساتھ سزا کا تصور بدل گیا ہے۔ سزا کا مقصد صرف یہ نہیں تھا کہ مجرم کا دماغ ٹھکانے لگایا جائے بلکہ سزا کا مقصد جرم کے ارادے باندھنے والے دوسرے اوباشوں کیلئے عبرت کا سامان فراہم کرنا بھی تھا۔ یہاں آکر عقل حیران اور دماغ ماؤف ہے۔ یہ کیا ہوگیا ہے کہ بڑے سے بڑا بدمعاش ایک دن دھر لیا جائے، اگلے روز رہائی پا جاتا ہے اور نئے شکار کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ پاکستان ہی میں یہ کیوں ہوتا ہے؟ چین میں کسی نے کھانے پینے میں ملاوٹ کردی تھی، اُسے گولی چلانے والے دستے کے سامنے کھڑا کیا گیا اور ایک حکم ملتے ہی اسکے سینے میں درجنوں گولیاں اتار دی گئیں۔ ایران میں منشیات اور اسلحہ لانے، لے جانیوالوں کو بے دریغ چوراہوں میں یوں لٹکا دیا جاتا ہے کہ ان کی کھنچی ہوئی گردنوں والی لاشیں کئی روز تک وہیں سڑا کرتی ہیں۔ سعودی عرب میں تو نماز جمعہ کے بعد جوں ہی نمازیوں کا مجمع مسجد سے باہر آتا ہے، دو چار مجرم سر جھکائے منتظر ہوتے ہیں کہ انکے سر بھُٹّے کی طرح اُڑا دےئے جائیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ سڑک پر پڑی ہوئی چیز کو بھی ہاتھ لگاتے ہوئے خوف سے کانپتے ہیں کیونکہ وہاں اسکی سزا وہی ہے جو شریعت میں چور کی سزا ہے،کون چاہے گا کہ اسکا ہاتھ، ہاتھ سے جاتا رہے۔
یہ ہے سزا کا کمال۔ جرم و سزا کی تاریخ حیرت ناک سے زیادہ عبرت ناک ہے۔ ایک زمانہ تھا جب مجرم کی کھال کھنچوا کر اس میں بھس بھر دیا کرتے تھے۔ آنکھوں میں سلائیاں پھیر دیا کرتے تھے۔ زہر کا پیالہ پلایا کرتے تھے۔ ہاتھی کے پاؤں تلے کچل دیتے تھے۔ توپ دم کرنے کا عمل تو انیسویں صدی تک جاری تھا جب مجرم کو توپ کے دہانے پر باندھ کر گولا داغ دیا کرتے تھے۔ ایک اور سزا کا احوال پڑھا ہے۔ راجوں مہاراجوں کی ریاستوں میں قید خانے سڑک کے کنارے اس طرح بنائے جاتے تھے کہ ان کے سلاخوں والے دروازے سڑک کی جانب ہوا کرتے تھے اور آتے جاتے راہ گیروں کو صاف نظر آتا تھا کہ اندر کون بند ہے چنانچہ راہ گیر ان پر لعنت ملامت کرتے تھے، بستی کے لڑکے انہیں ستاتے تھے، ان کے مخالف گالم گلوچ کر کے دل کا بوجھ ہلکا کیا کرتے تھے اور سب سے بڑھ کر بیوی بچّے سلاخوں کے باہر بیٹھ کر روتے اور سر پیٹتے تھے۔
پھانسی کی سزا تو بہت مہذب تھی۔ اس میں خیال رکھا جاتا تھا کہ مجرم ایک ہی جھٹکے میں آسانی سے مر جائے اور اسے تکلیف نہ ہو۔ اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا کہ رسّی مضبوط ہو، ٹوٹ نہ جائے اور پھندے کی گرہ کان کے نیچے ایسی جگہ ہو کہ جھٹکا لگتے ہی ریڑھ کی ہڈّی ٹوٹ جائے اور مجرم کو لمحہ بھر میں موت آجائے۔ اس کے علاوہ یہ بھی تھا کہ اگر تین چار کوششیں ناکام ہو جائیں اور مجرم کو موت نہ آئے تو اس کی سزا منسوخ ہو جاتی تھی۔ افغانستان میں جب طالبان کی حکمرانی تھی تو مجرم کو دیوار کے سائے میں بٹھا کر وہ دیوار اُس کے اوپر گرادی جاتی تھی۔ مر جائے تو خلاصی، بچ جائے تو رہائی۔ لوگوں کو زندہ دفن کردیا جاتا تھا، بلوچستان میں یہ واقعہ ہو چکا ہے۔ کہیں انہیں دیوار میں چنوا دیا جاتا تھا۔ عوام کیلئے عبرت کے خیال سے مجرموں کے سر قلم کر کے ان کے مینار کھڑے کر دےئے جاتے تھے۔ مجرم کا منہ کالا کرکے اسے گدھے پر بٹھا کر شہر کا گشت کرایا جاتا تھا، مجرم اگر شہزادہ ہو تو ہاتھی پر بٹھاتے تھے۔ ہر حال میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا تھا کہ مجرم کا رخ جانور کی دُم کی طرف ہو۔ ٹانگیں چیرنے کی سزا بھی رائج تھی۔ اندھیری کوٹھڑیوں میں بند کر کے عمر بھر کیلئے بھول جانے کا رواج بھی تھا۔ مَردوں کو آختہ کردیا جاتا تھا، ان کی حالت مُردوں سے بھی بدتر ، خصّی بکروں جیسی ہو جاتی تھی۔
غرض یہ کہ سزا کتنی مہذب ہے یا کتنی معیوب، اس طرح کے معیار وقت کے ساتھ اور مختلف علاقوں میں مختلف شکلیں اختیار کرتے رہے مگر مجرم کا سزا پانا کبھی موقوف نہیں ہوا۔ سزائے موت آج تک بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ دنیا کے بعض علاقوں میں ممنوع ہے۔ برطا نیہ میں مجرم کی جان نہیں لی جاتی ورنہ ایک زمانہ ایسا تھا کہ چھوٹے موٹے اٹھائی گیروں کو بھی سزائے موت ہوا کرتی تھے۔ تقریباً ہر جرم کی سزا پھانسی تھی۔ مجرم ذرا زیادہ خبیث تصور کیا جائے تو اسے مجمع کے سامنے زندہ جلا دیتے تھے۔ کہیں کہیں بھوکے شیروں کے آگے ڈال دیتے تھے ، جہلم کے قریب شیر شاہ کے قلعہ رہتاس میں ایسے شیروں کے قیام و طعام کا مقام آج تک محفوظ ہے۔ ایسے موقعوں پر اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا تھا کہ مجمع موجود ہو اور سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھے۔نتیجہ کیا ہوتا تھا۔ تازہ مثال سعودی عرب کی ہے۔ وہاں کوئی بیوقوف ہی جرم کرتا ہے،کچھ پرلے درجے کے احمق کسی کی باتوں میں آکر منشیات لے جاتے ہیں اور جلد ہی اپنی زندگی کا آخری جمعہ دیکھ لیتے ہیں۔ یہی حال ایران کا ہے۔ امریکہ کی کئی ریاستوں میں سزائے موت ممنوع ہے لیکن ایک ریاست نے سزائے موت کچھ عجب ڈھنگ سے بر قرار رکھی ہے۔ وہاں کاریں چھیننے کی وارداتیں بڑھتی جا رہی تھیں۔ ٹریفک سگنل پر لوگ ڈرائیور کو اتار کر اور چابیاں چھین کر کار لے جاتے تھے۔ جب یہ وارداتیں زیادہ بڑھیں تو عدالت نے اعلان کر دیا کہ کار کے مالک اپنے پاس اسلحہ رکھیں۔ اگر کوئی کار چھیننے کی کوشش کرے ، ایک گولی اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان یوں پیوست کریں کے پھر شہر میں کوئی شخص کار چھیننے کی جرأت نہ کرے۔ کہتے ہیں کہ وہ دن اور آج کا دن، پھر وہاں کسی نے کسی کی کار نہیں چھینی۔سزاؤں کی اس طویل فہرست میں آپ نے ایک بات مشترک دیکھی ہوگی۔ سزا دیتے وقت کوشش کی جاتی تھی کہ دن دہاڑے اور سرِعام دی جائے۔ دنیا دیکھے، دوسروں کو آنکھوں دیکھا حال سنائے اور لوگ کانوں کو ہاتھ لگائیں۔ مگر اب کیا ہوا ہے۔ بارہا دیکھا ہے کہ کسی کو سزا ہو تو انسانی حقوق والے جلوس نکالنا شروع کر دیتے ہیں اور نعرے لگاتے ہیں کہ یہ سزا غیر مہذب ہیں ۔ یہ سب نہ ہو تو خیر سے رشوت خوروں کی معاشرے میں بھرمار ہے۔ کیسا ہی جرم ہو، ایک مٹھی سے دوسری مٹھی میں منتقل ہونے والی رقم سب کئے کرائے پر پانی پھیر دیتی ہے۔ نہ کوئی تکلیف، نہ زحمت، نہ کیفرِ کردار اور نہ نشانِ عبرت۔ بس ظلم کا نشانہ بننے والی ماں یا بیوی یا بیٹے بیٹی یا بوڑھا باپ دل مسوس کر رہ جاتے ہیں اور ٹیلی وژن پر ان کا یہ کہنا کہ ہمیں انصاف دلایا جائے، اس احمق ڈبّے کی اسکرین پر ان کا آخری پیغام ہوتا ہے۔ اس کے بعد سنّاٹا چھا جاتا ہے، موت کا سیاہ سنّاٹا۔اس مقام پر ایک شخص ذہن میں آیا۔ نام تھا اس کا سنجے گاندھی اور بیٹا تھا وہ بھارت کی وزیر اعظم اندراگاندھی کا۔ جب وہ بہت بااثر تھا اور خیال تھا کہ اگلا وزیر اعظم وہی ہوگا اور جب بھارت کی آبادی کا ہندسہ راتوں رات بڑھ کر ایک ارب کو چھونے والا تھا، سنجے گاندھی نے سوچا کہ اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے۔ کسی نہ کسی بات کو جواز بنا کر زیادہ سے زیادہ مردوں کی نس بندی کرادی جائے یعنی وہ اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ رہیں۔ ملازمت حاصل کرنے کے لئے، ترقّی کی خاطر، یہاں تک کہ تنخواہ وصول کرنے کی غرض سے لوگوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنی نس بندی کرائیں۔ اسے آپ نسل بندی بھی کہہ سکتے ہیں۔ خیر، یہ بھی ایک انتہا تھی اور یہ حکمت مقبول نہ ہو سکی لیکن اس ساری بحث کے خاتمے پر جو تدبیر ابھر کر سامنے آئی ہے وہ سیدھے سادے لفظوں میں یوں ہے۔ زنا بالجبر، آبرو ریزی، عصمت دری اور عورت کی بے حرمتی جیسی گھناؤنی حرکتوں کے تمام مجرموں کو پکڑ کر ان کی نس بندی کردی جائے۔ ڈاکٹر کا دیا ہوا ذرا سا شگاف جرم کے بے شمار شگاف بند کردے گا۔ چھ برس کی بچی پر وحشیانہ حملہ کر کے اس کا گلا گھونٹا گیا ہو تو مجرم کو بھرے مجمع کے سامنے بھوکے شیر کے آگے ڈالنے پر انسانی حقوق والوں کو اعتراض ہوگا، مجھے نہیں۔ سزا کا تصور بدل جائے تو بڑے بڑے سفّاک لوگوں کی حالت اس کتّے جیسی ہو جائے گی جو اپنی دم ٹانگوں کے درمیان چھپا لیتا ہے۔ دوسر ی بات یہ کہ جو لوگ ننھے بچّوں کو پولیو کی روک تھام کے قطرے پلانے والوں کو یہ کہہ کر قتل کرتے ہیں کہ یہ قطرے پینے سے بچّے آگے چل کر خود بچّے پیدا کرنے کے قابل نہیں رہیں گے، اُن کا تو آسان علاج یہ ہے کہ اُن کی وہ رگ ہی قطع کر دی جائے جس کے راستے وہ مستقبل کے قاتل پیدا کر سکتے ہیں۔
یہ کوئی لفّاظی نہیں یا یہ باتیں جوشِ خطابت میں نہیں کہی جارہی ہیں۔ یہ سنجیدگی سے سوچنے کی باتیں ہیں کہ ایک ذرا سا چیرہ بے شمار چیرہ دستیوں کا قلع قمع کرسکتا ہے۔
ہمّت کیجئے،کر کے تو دیکھئے۔
تازہ ترین