• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ رات قیامت کی گرمی تھی۔ رات بارہ بجے کے قریب ایک لطیفہ یاد آیا۔
ایک مبلغ، افریقہ کے دوردرازعلاقے میں تبلیغ کر رہا تھا کہ اسے ایک وحشی قبیلے نے پکڑ لیا۔ سردار نے اعلان کیا کہ اس مبلغ کو آگ پر بھون کر کھایا جائے گا۔ مبلغ کا خدا پر پختہ یقین تھا۔ اس نے آسمان کی طرف منہ اٹھایا اور کہا:
”اے میرے خدا … مجھے بچا لے، میں تیری تبلیغ کرتے مارا جارہا ہوں۔“
اچانک اس کے کان میں آواز آئی۔
”ہمت مت ہار… تیرے ہاتھ آزاد ہیں۔ تیرے پاس ہی ایک پتھر پڑا ہواہے اسے اٹھا کر وحشیوں کے سردار کے سر پر دے مار!“
مبلغ کو یقین ہوگیا کہ خدا نے اس کی سلامتی کا رستہ ڈھونڈ لیاہے، اس نے لپک کر پتھر اٹھایا اور سردار کے سر پر دے مارا۔ سردار لہولہا ن ہو گیا ، اتنے میں اوپر سے پھر آواز آئی۔
”میرے بندے تجھے پہلے غلط فہمی تھی… مارا تو اب جائے گا۔“
آپ پوچھیں گے کہ یہ لطیفہ کیوں یاد آیا؟
مجھے یہ لطیفہ میاں محمد نواز شریف کے لئے یادآیا کہ اس لوڈشیڈنگ کے ماحول میں الیکشن جیت کر تو میاں نوازشریف مارے گئے، پھر خیال آیا کہ ابھی نہیں… وہ تو وزارت ِ عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد مارے جائیں گے!!
جیساکہ پہلے عرض کیا کل رات قیامت کی گرمی تھی۔ رات ساڑھے آٹھ بجے کے قریب گھر پہنچا تو لائٹ غائب تھی۔ سب اہل خانہ اپنے اپنے تئیں یہ پیش گوئی کررہے تھے کہ لائٹ 9بجے آئے گی یا 9بج کر 25 منٹ پر۔ دس بج گئے لائٹ نہیں آئی۔ شدید گرم کمروں میں کوئی سونے کے لئے تیار نہیں تھا۔ سب لوگ یو پی ایس پر گھوں گھوں چلتے پنکھے کے نیچے بیٹھے لائٹ کے منتظر تھے۔ بچوں کے سکول ٹیسٹ جاری ہیں۔ انہوں نے جلدی سونا تھا۔ مگر بجلی ندارد… میری چھوٹی بیٹی میری گود میں لیٹی باربارپوچھ رہی تھی ”بابا! لائٹ کب آئے گی؟‘ ‘ میں ہر بار اسے دس منٹ، پندرہ منٹ کہہ کر تسلی دے رہا تھا! رات ساڑھے دس بجے جیو کے ایک رپورٹر کو فون کیا تو اس نے بتایا کہ گدو کا پاورسٹیشن بند ہوگیا ہے۔ سسٹم سے 1300میگاواٹ بجلی چلی گئی۔ ایک اورصاحب کو فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ گدو کاتو بہانہ ہے یہ بجلی والوں کی واردات ہے۔ ہر روز کسی علاقے کو منتخب کرکے وہاں دن میں اٹھارہ بیس گھنٹے بجلی بند رکھتے ہیں دوسرے علاقوں میں نسبتاً کم۔ اگلے روز کسی اور علاقے کی سختی آ جاتی ہے۔ بارہ بجے کے قریب بچے نڈھال ہو کر سو گئے اور رات ساڑھے بارہ بجے ٹھیک چارگھنٹے بعد، ایک گھنٹے کے لئے بجلی آئی۔ تب ہی کہیں میں میاں نوازشریف کے لئے یہ لطیفہ یاد کرتے ہوئے سونے کے لئے لیٹا مگر بجلی کی آنکھ مچولی جاری رہی۔ رات سوتے جاگتے گزری۔ صبح بچوں کے سکول جانے کے وقت سات بجے پھر بجلی گئی اور ساڑھے دس بجے جب گھر سے نکلا… بجلی نہیں آئی تھی!!
جو مجھ پرگزری، میں نے بلاکم و کاست لکھ دیا ہے لیکن یقین مانئے، یہ کہانی گھر گھر کی ہے۔ آپ کے گھر کی بھی، میرے ہمسایوں کی بھی،عزیز و اقارب ، رشتے دار سب پر یہی گزری ہے!
مگر کیوں؟
اس لئے کہ شدید گرمی میں پاکستان میں بجلی کی کل ڈیمانڈ 18,17 ہزار میگاواٹ ہے! جبکہ پیداوار محض 7سے 8 ہزار میگاواٹ ہے۔ پھر 600 ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ (گردشی قرضے… جو حکومت نے آئل کمپنیوں اور پیداواری یونٹوں کو اداکرنے ہیں اور اپنے ہی اداروں سے بلوں کی شکل میں وصول کرنا ہیں) ہے! بجلی پیداکرنے کے 17ادارے فرنس آئل نہ ہونے یا ادائیگیاں نہ ہونے کے باعث بند پڑے ہیں۔
ان حالات میں نئے وزیراعظم حلف اٹھاتے ہی مارے نہیں جائیں گے تو اور کیاہوگا؟
مگر ذرارکئے … بجلی کا بحران یہیں ختم نہیں ہوتا۔ پاکستان میں بسنے والے زیادہ ترلوگ شودر یعنی انتہائی حقیر ہیں، جنہیں یہ لوڈشیڈنگ کاعذاب بھرپور طریقے سے بھگتنا پڑتاہے… کچھ لوگ برتر اوربرہمن قبیلے کے ہیں۔ انہیں لوڈشیڈنگ سے استثنیٰ حاصل ہے۔ انہیں یہ علم نہیں ہوتا کہ باہر گرمی کتنی پڑ رہی ہے؟ اورکیا بجلی کی لوڈشیڈنگ بھی ہوتی ہے مثلاً صرف لاہور کی مثال لے لیجئے! اس شہر میں بجلی کے 300سے زائد فیڈر ہیں مگر مندرجہ ذیل علاقوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی!
(۱) جی او آر ون (یہاں تمام بڑے بڑے بیوروکریٹس، سیکرٹریوں اور ججوں کی رہائش گاہیں ہیں) (۲) جی او آر بہاولپور ہاؤس (یہاں بھی سب بیوروکریٹ رہائش پذیر ہیں) (۳) جی او آر شادمان (اس علاقے میں بھی بیوروکریسی کے گھر ہیں) (۴) جاتی عمرہ (یہاں مسلم لیگ ن کے سربراہ اور ہونے والے وزیراعظم میاں نوازشریف اور ان کاخاندان رہائش رکھتا ہے )،(۵) شامی روڈ کینٹ (یہاں فوج کے کورکمانڈر کا دفتر ہے) (۶) لاہور ہائی کورٹ (جہاں انصاف کیاجاتا ہے) اس کے علاوہ 35اور فیڈرز ہیں جہاں وی وی آئی پی اور وی آئی پی لوگ رہتے ہیں اور جہاں لوڈشیڈنگ نہیں کی جاتی ہے!
یہ ہے پاکستان کا سماجی ا نصاف… ان حالات میں کوئی بھی ماراجائے گا ایک نومنتخب وزیراعظم کی کیاحیثیت!
آنکھیں کھول دینے کے لئے پانی و بجلی کے نگران وزیر ڈاکٹر مصدق ملک کایہ بیان ہی کافی ہے کہ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے لئے جس رقم کی منظوری دی جاچکی ہے وزارت خزانہ وہ رقم دینے کو تیار نہیں وہ خود بجلی کے پیداواری یونٹوں کی نگرانی کرنا چاہتی ہے۔ بجلی کی 25 فیصد پیداوار ایندھن اور پیسے نہ ہونے کی وجہ سے کم ہوچکی ہے جبکہ مزید 25 فیصد ٹیکنیکل وجوہات کی بنا پر گرچکی ہے! ایک سرکاری یونٹ دو سال سے اس لئے بند پڑا ہے کہ اس کے کولنگ یونٹ کاایک پنکھا خراب ہے! کسی نے آج تک اس پنکھے کو مرمت کرانے کی کوشش ہی نہیں کی!
لوگ زندگی سے عاجز آچکے ہیں۔ منتظر ہیں کہ نئی حکومت بنے تو اس پر ملبہ ڈال سکیں۔ شیخ سعدی نے کہیں کہا تھا کہ ایک دفعہ دمشق میں اس شدت کاقحط پڑا کہ لوگ عشق کرنا بھول گئے (یعنی یہ کیسی حیرت کی بات ہے)۔ پاکستان میں قریب قریب یہی حالت لوڈشیڈنگ نے کر رکھی ہے!
ایک پاکستانی لڑکے نے ایک لڑکی سے انگریزی میں کہا ”آئی لو یو I want to marry you“
لڑکی نے کہا ”مجھے انگریزی نہیں آتی اردو میں بات کرو!“
لڑکابولا ”کچھ نہیں میری بہن… بس دعا کرو پٹرول سستا ہو جائے اوربجلی کی لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے۔“
تازہ ترین