• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فاطمہ نعیم

نوجوانوں کو سیاسی پارٹیوں کے منشور سے کوئی دل چسپی نہیں ۔ انہوں نے اپنے منشور میں کیاکہا،اُس سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔وہ صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے بنیادی مسائل’’تعلیم اور صحت ‘‘کون حل کرے گا ؟

باقی سب ان کے نزدیک ثانوی چیز یں ہے ۔اگر ان کو تعلیم اور صحت کی سہولتیں میسر ہوجائیں تو باقی مسئلے خود بخود حل ہوجائیں گے ۔ حکام کو اس دو نکاتی منشور پر توجہ دینے کی ازخد ضرورت ہے۔

کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے صحت مند و تعلیم یافتہ معاشرے کا قیام ناگزیر ہے،صحت اور تعلیم ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ساتھ ساتھ چلتے ہیں، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں تو بے جا نہ ہوگا،خاص طور پر جب بات نوجوانوں کی ہوتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ نوجوان ہی ملک کی ترقی اور بقاء کے ضامن ہوتےہیں ،وہ ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر انہیں اچھی صحت اور معیاری تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے ،تو یہ ملک کی تقدیر بدلنے کی اہلیت رکھتے ہیں،مگر بدقسمتی سے ہمارے یہاں صحت و تعلیم جیسے اہم ترین شعبے محض کاروبار بن کر رہ گئےہیںجس کا خمیازہ نوجوان تعلیم کے شعبے میں کچھ اس طرح بھگت رہے ہیںکہ، اپنی زندگی کے کئی سال اور پانی کی طرح پیسہ بہانے کے باوجود بھی ڈگریوں کے حصول کے لیے احتجاج کرنے پر مجبور ہیں یا عدالتوں کے چکر کاٹتے نظر آتے ہیں۔

قدرت نے جہاں پاکستان کو بے شمار نعمتوں اور وسائل سے مالا مال کیا ہے،وہیںاس سر زمین کو ذہین دماغ اور بہترین صلاحیتوں کے حامل نوجوانوں سے بھی نوازا ہے۔لیکن بد قسمتی سے ان کی تعلیم و صحت پر کبھی دھیان نہیں دیا گیا۔ زر خیز زمین بھی اس وقت تک بے کار ہی رہتی ہے،جب تک اس پر محنت نہ کی جائے، کاشت کاری نہ کی جائے،مگر یہ بات ہمارے مقتدر حلقوں کی سمجھ میں کبھی نہیں آتی ۔مملکت پاکستان نے اپنی زندگی کے ہر دور میں نوجوانوں کو سیاسی تحریکوں کے ہاتھوں استعمال ہوتے دیکھا، جب جب الیکشن نزدیک آئے، تمام سیاسی جماعتوں نے اپنی نگاہیں نوجوانوں کی طرف مرکوز کر لیں ،لیکن جب بات نوجوانوں کو ریلیف دینے کی، انہیں سہولتیں فراہم کرنے کی ہوئی ہے،تو ہر بجٹ کے تھیلے سے ایک ہی بلی برآمد ہوئی اور کوئی خاطر خواہ اقدامات نظر نہ آئے۔ہر دور میں بجٹ آنے سے پہلے،شعبۂ تعلیم و صحت کے لیے کثیر رقم رکھنے کی باتیں تو کی جاتی ہیں، مگرجب بجٹ پیش ہوتا ہے تو سب سے کم ان ہی دو شعبوں میں رقم مختص کی جاتی ہے۔ملک اس وقت ایک بحران کی سی کیفیت میں ہے۔ ذرا دور اندیشی سے کام لیا جائے ،تو نوجوانوں کو تعلیمی میدان میں سہولتیںفراہم کرکے انہیں اس بحران سے نمٹنے کے لیے تیار کیا جا سکتا ہے۔ ذہین طلباء کے لیے تعلیمی وظائف کا اہتمام، انٹرن شپ اور پارٹ ٹائم ملازمت کے مواقع پیدا کرنے ہوں گے، تاکہ دوران تعلیم ہی نوجوان اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کے ساتھ ساتھ اپنے تعلیمی اخراجات خود برداشت کر سکیں۔ طلباء کے لیے ہنر مندی اور دست کاری کے مفت فنی کورسز کا آغاز ایک بہترین قدم ثابت ہو سکتا ہے، اس سے نہ صرف دیہی علاقوں کے نا خواندہ نوجوان ملک کے لیے کار آمد شہری ثابت ہو سکتے ہیں، بلکہ لڑکیوں کو بھی گھر بیٹھے پیسے کمانے کا موقع مل جائے گا،جو معاشی بوجھ کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

سرکاری اداروں کا تعلیمی معیار پرائیویٹ اداروں کے معیار کی سطح پر لانا ہو گا ،بہت سے ذہین طلباءمیڈیکل، انجینئرنگ اور دیگر شعبوں میں اس لیے پیچھے رہ جاتے ہیں کہ بنیادی نصابی تعلیم اردو میں حاصل کرنے کے بعد ان کی تمام تر توجہ اور ذہنی صلاحیتیں ایف ایس سی کے نصاب میں انگریزی زبان کو سمجھنے میں لگ جاتی ہیں۔ طلباءکی بنیادی ضروریات میں مفت ٹرانسپورٹ کی اہمیت بھی کم نہیں، اگر طلباء کویہ سہولت میسر آ جائے، تو اس سے ان کے اخراجات میں بھی کمی واقع ہوگی۔

تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیےاساتذہ کی تربیت کے ساتھ ساتھ اس نظام کو شفاف اور رٹہ سسٹم سے پاک کرنا ہوگا۔ طلباء اور اساتذہ کی تربیت کے لیے موٹیویشنل اسپیکرز کی خدمات حاصل کرنا مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ نصابی تعلیم کے علاوہ غیر نصابی سرگرمیاں خصوصاً کھیل بھی ان کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے مفید ہیں اور ہر طالب علم کا بنیادی حق بھی،بد قسمتی سے ہمارے تعلیمی ادارے اس سہولت سے بھی محروم ہیں۔ کھیل مشکلات کو بہادری سے جھیلنے اور مسکرا کر زندگی کا آخر تک سامنا کرنا سکھاتے ہیں۔اس سے نوجوانوں میں قوت برداشت پیداہوتی ہے۔

گلوبل کمپیٹی ٹیونس رپورٹ(global competittivness report) کے اعداد وشمار کے مطابق اعلی تعلیم کے میدان میں پاکستان اس وقت 140 میں سے 124 ویں نمبر پر ہے، جب کہ ہمسایہ ممالک، بھارت 90 اور ایران 60 نمبر پر ۔ صف اول کی جامعات میں سے 600 جامعات کی فہرست میں پاکستان کا نام کہیں نظر نہیں آتا، جب کہ اس فہرست میں چین کی 21، بھارت کی 8، سعودیہ کی تین اور ایران کی ایک جامعہ شامل ہے۔

شعبۂ صحت کی صورت حال بھی اس سے کچھ الگ نہیں ہے، صحت کے بجٹ میں عوام، نوجوانوں کے لیے خصوصی کوٹہ مقرر ہو نا چاہیے۔ صاف پانی اور معیاری خوراک ہر ذی روح کا بنیادی حق ہے، مگر بدقسمتی سے ہماری نوجوان آبادی کا ایک بڑا حصہ گندے پانی کے استعمال سے ہیپاٹائٹس، معدے جگر اور آنتوں کی سوزش اور دیگر امراض میں مبتلا ہے۔جگہ جگہ گندگی، اسکولوں، کالجوں کے باہر کچرے کے ڈھیر، طلباء میں سانس اور جلد کی بیماریاں پھیلارہے ہیں۔نسل نو کو علاج معالجے میں ریلیف فراہم کرنے کے لیے صحت کارڈز اجراء کیے جانے چاہییں،تاکہ کچھ ٹیسٹ اور ادویہ رعایتی قیمتوں پر حاصل کی جا سکیں۔ 

اس سلسلے میں کالجز اور جامعات میں فری ڈسپنسریز قائم کی جا سکتی ہیں۔ ملک و قوم کی ترقی کے لیےنوجوانوں کا صحت مند ہونا ضروری ہے۔ ان کے لیے پارکس اور ورزش کے لیے میدانوں میں خصوصی جگہ بنائی جانی چاہیے، تاکہ وہ چست وتوانا ہوں۔صحت مند، تعلیم یافتہ معاشرے کا قیام نوجوانوں کے بغیر ممکن نہیں اور یہی موجودہ دور کے نوجوانوں کی آواز ہے۔فی الحال نئی حکومت نے بجٹ پیش نہیں کیا ہے، مگر نوجوانوں کو اس سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں،کاش کہ تمام امیدیں بر آئیں۔  

تازہ ترین