• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدلیہ میں مداخلت ہے، جسٹس اطہر من اللّٰہ، دلیل تسلیم نہیں، جو جج کچھ نہیں کرسکتا وہ گھر بیٹھ جائے، چیف جسٹس فائز

اسلام آباد(رپورٹ:،رانا مسعود حسین ) سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کی جانب سے عدالتی امور میں مداخلت سے متعلق لکھے گئے خط کے حوالے سے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اٹارنی جنرل سمیت حکومت بھی عدلیہ میں مداخلت تسلیم کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے 76 سالوں سے اس ملک میں جھوٹ بولا جا رہا ہے، ہم خوفزدہ کیوں ہیں؟ سچ کیوں نہیں بولتے ہیں؟ ہمیں عدلیہ میں مداخلت کی حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے، عدلیہ میں مداخلت نہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے سے رکی ہے؟ نہ کسی اور چیز سے؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ دلیل تسلیم نہیں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جج ملی بھگت کررہے ہیں تو انہیں یہاں نہیں بیٹھنا چاہیے، بلکہ اپنے گھر چلے جانا چاہیے، ایک جج کے پاس سب سے بڑا اختیار توہین عدالت کی کارروائی کرنے کا ہے، جج کے پاس جو اختیار ہے اسے استعمال تو کرے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہمیں ایسا نظام وضع کرنا ہے کہ ایک جج مداخلت کیخلاف کھڑا ہو تو پوری عدلیہ پیچھے کھڑی ہو، اور اگر جج کسی کے ساتھ ملا ہوا ہو تو اسے فوری طور پر عدلیہ سے فارغ کیا جاسکے، سسٹم بنانے سے ہی جج طاقتور ہوگا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا عدلیہ میں مداخلت کے معاملے پر دو رائے نہیں مگر حکومت نہیں کر رہی، جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا اگر جج ملا ہو تو کچھ نہیں ہوسکتا، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا جج کی کمٹمنٹ حلف کیساتھ ہونی چاہیے۔ 

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال خان مند وخیل،جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل چھ رکنی لارجر بینچ نے منگل کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے خط سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ 

دوران سماعت پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے اور عدالتی امور میں مداخلت کرنے والوں کیخلاف کارروائی سے متعلق پیش کی گئی تجاویز پر وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد مزید سماعت غیر معینہ دنوں کیلئے ملتوی کردی ہے۔ 

جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مختلف وکلا تنظیموں اور وکلا ء کی جانب سے انفرادی تجاویز جمع کروانے پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ عدلیہ کی آزادی کے معاملے پر بھی ملک بھر کے وکیل اور ان کی تنظیمیں ایک صفحے پر نہیں آسکی ہیں۔ 

دوران سماعت اٹارنی جنرل نے پچھلی سماعت کا حکمنامہ جاری کرنے کی استدعا کی جس پر عدالت کے اندرہی حکمنامہ پر دستخط کروائے گئے اور جسٹس اطہر من اللہ نے حکمنامہ پر اپنے ہاتھ سے ہی ایک علیحدہ نوٹ بھی قلمبند کردیا۔ 

جسٹس اطہر من اللہ نے ریما رکس دیے کہ 2018 میں ہائی کورٹ کے ججوں کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ سپریم کورٹ ملی ہوئی تھی، جس پر سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے صدر شہزاد شوکت نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ میں اسکی تائید نہیں کرونگا کہ ججوں نے سمجھوتہ کیا ہوا تھا اور ملی بھگت کررہے تھے، اس طرح کے ریما رکس سے عدلیہ پر عوام کا اعتماد ختم ہورہا ہے۔

سپریم کورٹ بار کے صدر نے کہا کہ جب سپریم کورٹ کا جج یہ کہتا ہے تو پھر عدلیہ پر عوام کا اعتماد نہیں رہتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر 2018 میں عدلیہ سے فائدہ اٹھانے والی ایک سیاسی جماعت تھی تو آج دوسری سیاسی جماعت ہے۔

چیف جسٹس نے کہا ججوں کو اپنا لوہا خود منوانا ہوتا ہے،جج کو تہہ در تہہ آئینی تحفظ حاصل ہے، ہم بار بار اپنی بات کرتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ بیورو کریسی کو تحفظ بھی حاصل نہیں ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ دنیا کا سب سے بڑا اصول سچ بولنا ہے، سچ ہر چیز کو ٹھیک کردیتا ہے، ججوں کو دباؤ میں نہیں آنا چاہیے، ہمیں تو تنخواہ ہی اپنے فرض کی ادائیگی کی دی جاتی ہے،  جو دباؤ میں آجاتا ہے اسے گھر چلے جانا چاہیے۔

جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو اختیار سپریم کورٹ استعمال نہیں کرسکتی ہے ،ایک سول جج سے کیسے توقع رکھی جائے کہ وہ توہین عدالت کا اختیار استعمال کریگا ،3 نومبر 2007کو سات ججوں نے ایک آرڈر جاری کیا تھا جب عوام کی طاقت سے عدلیہ بحال ہوئی تو سات ججوں کے آرڈر کی خلاف ورزی پر کسی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہوئی تھی۔

عدالت نے کہا کہ اس عدالت کو کسی کے خلاف کارروائی کی جرات ہی نہیں تھی، جب سپریم کورٹ کو جرات نہیں تو نچلی عدلیہ کیسے کریگی؟ سماعت کی ابتدا میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے روسٹرم پر آکر حکومت کا جواب جمع کرانے کے لیے ایک دن کی مہلت کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ تاحال پچھلی سماعت کا تحریری حکم نامہ نہیں ملاہے۔

اہم خبریں سے مزید