• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علامہ اقبال نے ہمیشہ مایوسی کی بجائے امید کے چراغ جلائے

ڈاکٹر طاہر حمید تنولی

من نوائے شاعر فردا استم کہہ کر اقبال نے اپنے شعری منصب کو یوں بیان کر دیا کہ اقبال وہ شاعر ہیں جو اپنے دور میں رہتے ہوئے مستقبل پر نظر رکھنے والے اور مستقبل کی صورت گری کرنےو الے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک غلام معاشرے میں جنم لینے کے باوجود اقبال نے ہمیشہ مایوسی کی بجائے امید کا چراغ جلاتے ہوئے اپنے قوم کے حال کو بدلنے کی آرزو کی اور اسے نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کرنے کی تلقین کی۔ اقبال کو اللہ نے وہ حساس دل، حقیقت کا مشاہدہ کرنے والی نگاہ اور ملت کے پرشکوہ مستقبل کا یقین عطا کیا تھا کہ اس طاقت کے بل بوتے پر اقبال نے انتہائی یاسیت انگیز اور مایوس کن منظرنامے میں رہتے ہوئے بھی مستقبل کا وہ نقشہ دیکھا جسے ان کے معاصرین دیکھنے سے قاصر تھے، اسی مستقبل کے منظرنامے کو بیان کرتے ہوئے اقبال نے لکھا:

کون سی وادی میں ہے، کون سی منزل میں ہے

عشقِ بلا خیز کا قافلۂ سخت جاں!

دیکھ چُکا المنی، شورشِ اصلاحِ دیں

جس نے نہ چھوڑے کہیں نقشِ کُہن کے نشاں

حرفِ غَلط بن گئی عِصمتِ پیرِ کُنِشت

اور ہُوئی فکر کی کشتیِ نازک رواں

چشمِ فرانسیس بھی دیکھ چُکی انقلاب

جس سے دِگرگُوں ہُوا مغربیوں کا جہاں

ملّتِ رومی نژاد کُہنہ پرستی سے پیر

لذّتِ تجدید سے وہ بھی ہوئی پھر جواں

رُوحِ مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب

رازِ خدائی ہے یہ، کَہ نہیں سکتی زباں

دیکھیے اس بحر کی تہ سے اُچھلتا ہے کیا

گنبدِ نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا!

اور پھر ان انقلابات عالم میں ملت اسلامیہ کا مستقبل کیا ہو گا اس کو بھی یوں بیان کیا:

آبِ روانِ کبیر! تیرے کنارے کوئی

دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب

عالمِ نَو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں

میری نگاہوں میں ہے اس کی سَحر بے حجاب

پردہ اُٹھا دوں اگر چہرہ افکار سے

لا نہ سکے گا فرنگ میری نوائوں کی تاب

جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی

رُوحِ اُمم کی حیات کشمکشِ انقلاب

صُورت شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم

کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب

علامہ کی حیثیت ان کے اپنے قول کی مطابق اس شاعر کی تھی جن کے دلوں میں قومیں جنم لیتی ہیں۔ علامہ ملت اسلامیہ کا وہ دیدہ بینائے قوم تھے جنہوں نے ایک زوال پذیر قوم کو اپنے مسیحا صفت کلام سے حیاتِ نو عطا کی اور ان کی بے منزل جدوجہد آزادی کو ایک خودمختار مملکت کے قیام تک پہنچایا اور اس طرح ایک غلام قوم حیرت انگیز معجزہ بپا کرنے کی استعداد کی مالک بن گئی۔ مسلمانانِ ہند کے دور غلامی میں اقبال جیسے دانائے راز کی موجودگی ہی ملت اسلامیہ کی حیات باطنی کی دلیل تھی کہ مختلف حوادث اور عروج و زوال کا سارا سفر بھی ملت اسلامیہ کو مستقل پژمردگی اور فنائیت کا شکار نہیں کر سکتا بلکہ جب بھی ملت زمانے کے فتنوں کا نشانہ بنے گی اس کے بطن سے ایسی حیات افروز صدا ضرور بلند ہو گی جو اس کے حال کو حیاتِ نو عطا کرے گی اور اسے اپنا مستقبل تعمیر کرنے کی صلاحیت بھی بخشے گی۔ گویا اقبال کی صدائے روح افزا اور ان کا شعر و فکر ملت اسلامیہ کی حیاتِ اجتماعی ہی کی ایک دلیل بن گیا۔ علامہ کی شاعری میں جہاں روح عمل کو پھونکنے اور غلامی اور مایوسی کی زنجیروں کو توڑنے کا پیغام تھا وہاں ایک ایسا ضابطہ عمل بھی ان کے افکار میں نظر آتا ہے جو ملت کے مستقبل کی صورت گری کا ضامن ہے۔

علامہ نے 21مارچ 1932ء کو لاہور میں ہونے والے آل انڈیا مسلم کانفرنس کے اجلاس کی صدارت کی اور اس کانفرنس میں جو صدارتی خطبہ دیا وہ ان کی خداداد بصیرت کا آئینہ دار تھا۔ اس خطبے میں علامہ نے مسلمانوں کو درپیش چیلنجز کا جس طرح ازالہ کیا وہ ایک لحاظ سے ان کے خطبہ الہ آباد ہی کا تسلسل اور اس کے نفس مضمون کی توضیح تھا۔ علامہ نے فرمایا کہ سیاست کی جڑیں عام آدمی کی روحانی زندگی میں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ میرا یہ عقیدہ اور ایمان ہے کہ اسلام نجی رائے کا ایسا معاملہ نہیں ہے کہ جسے محض ذاتی معاملہ ہی قرار دیا جائے بلکہ اسلام سے مراد ایک معاشرہ ہے۔ اس میں یہ تو ممکن ہے کہ موجودہ زمانے کے سیاسی تصورات جیسا کہ ہندوستان میں وہ اپنی شکل اختیار کر رہے ہیں ممکنہ طور پر اسلام کے اصل ڈھانچے اور اس کی نوعیت پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ مجھے سیاست میں دلچسپی محسوس ہوتی ہے مگر میں قوم پرستی کے خلاف ہوں جیسا کہ اس لفظ سے یورپ میں مراد لی جاتی ہے۔ اس لیے نہیں کہ اگر اس جذبے کو یعنی قوم پرستی کے جذبے کو ہندوستان میں فروغ دیا گیا تو اس کا امکان ہے کہ مسلمانوں کے حصے میں کم مادی مفادات آئیں گے، میں اس کا اس لیے مخالف ہوں کہ اس میں الحادی مادیت کے جراثیم موجود ہیں جنہیں میں جدید انسانیت کے لیے عظیم ترین خطرہ تصور کرتا ہوں۔ حب الوطنی مکمل طور پر ایک قدرتی خوبی ہے جس کا آدمی کی اخلاقی زندگی میں ایک مقام ہے لیکن جو چیز اس سے بھی زیادہ ضروری ہے وہ ہے آدمی کا ایمان، اس کی ثقافت اور اس کی تاریخی روایات۔ ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ نے وطنیت کے رائج تصور پر تنقید کی اور اس کی حقیقت کو اس وقت کھولا جب اس کی رو میں ہندوستان کے بڑے بڑے قائدین بہہ رہے تھے اور اس کے مقابل جس چیز پر زور دیا وہ دینی تشخص، ایمان کی اساس، اپنی ثقافت اور اپنی تاریخ روایات ہیں۔ علامہ نے اس خطبے کے اختتام میں جن اقدامات کی طرف اشارہ کیا وہ اقدامات آج بھی ہمارے لیے عملی افادیت کا سامان رکھتے ہیں۔ علامہ نے فرمایا کہ اگر ملت کو سیاسی اور ثقافتی طور پر قوی بننا ہے اور اپنے تشخص کو بحال کر کے آگے بڑھنا ہے تو اسے کم از کم یہ اقدامات کرنے ہوں گے کہ ہماری سیاسی زندگی میں نظم و ضبط اور منتشر قوتوں میں یکجہتی اور نظم و ضبط ہونا چاہیے تاکہ ہندوستان میں ملت اسلامیہ کے بہترین مفادات میں کچھ اقدامات اٹھائے جا سکیں۔ یہ مرکزی تنظیم جو پورے ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندہ اور مربوط سیاسی قوت ہو اسے کم از کم پچاس لاکھ روپے کا ایسا فنڈ قائم کرنا چاہیے جو مشکل حالات میں مسلمانان ہند کی مدد کے لیے بروئے کار لایا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے طول و عرض میں نوجوانوں کی ایسی تنظیمیں اور رضاکاروں کی ایسی جماعتیں قائم کی جائیں جو اپنے آپ کو سماجی خدمات، اصلاح رسوم، قوم کی اقتصادی تنظیم اور دیہاتوں میں عوام میں معاشی شعور پیدا کرنے کے لیے کوشش کریں تاکہ مسلمانوں کو قرضوں اور سود کی لعنت سے نجات دلائی جائے اور ان میں زرعی انقلاب کے لیے اقدامات پیدا کیے جائیں۔ اس کے ساتھ علامہ نے تجویز دی کہ ہند کے تمام بڑے شہروں میں مردوں اور خواتین کے ایسے ثقافتی ادارے قائم کیے جائیں جن کا فی الاصل سیاست سے کوئی تعلق نہ ہو بلکہ ان کا مقصد نسل نو کی خوابیدہ ثقافتی اور تہذیبی توانائی کو بیدار کرنا ہو۔ انہیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرا دی جائے کہ بنی نو انسانی کی مذہبی اور ثقافتی تاریخ میں اسلام نے اب تک کیا کچھ کامیابیاں حاصل کی ہیں اور ابھی اس نے کیا کچھ کرنا ہے۔ ایک قوم کی خوابیدہ قوتوں کو جگانے کا یہی طریقہ ہے کہ ان کے سامنے ایک نیا لائحہ عمل رکھا جائے جس کا مقصد فرد کو وسعت دے کر اس کا اہل بنانا ہو کہ وہ قوم کو سمجھ سکے اور تجربہ کر سکے کہ زندگی کے منتشر اعضا کے ڈھیر کے طور پر نہیں بلکہ ایک بالکل متعین کل کی حیثیت سے جو باطنی پیوستگی اور یکجہتی کی حامل ہو وہ زندگی میں کوئی بڑی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔

علامہ نے فرمایا کہ ان ثقافتی اداروں کا ہمارے پرانے اور نئے تعلیمی مراکز کے ساتھ بھی گہرا رابطہ ہونا چاہیے تاکہ ہماری تعلیمی جدوجہد کے تمام دھاروں کو ایک ہی مقصد پر مرتکز کیا جا سکے اور آخری چیز علامہ نے یہ بیان کی کہ علما کی ایک مجلس قائم کی جائے جس میں وہ مسلم وکلاء شامل ہوں جنہوں نے جدید قانون کی تعلیم حاصل کی ہو اور اس تنظیم کا مقصد یہ ہے کہ جدید حالات کی روشنی میں اسلامی قانون کی حفاظت، اس کی توضیح اور اگر ضروری ہو تو نئی تعبیر کا اہتمام کیا جائے۔ یہ کام اسلام کے بنیادی اصولوں کی روح کے نزدیک رہتے ہوئے کیا جائے اس مجلس کو آئینی اعتبار سے تسلیم کیا جائے اور مسلمانوں کے پرسنل لا پر اثر انداز ہونے والا کوئی مسودہ قانون قانون سازی کے مراحل سے اس وقت تک نہ گزر سکے جب تک کہ اسے اس مجلس کی منظوری حاصل نہ ہو جائے۔ مسلمانانِ ہند کے لیے اس تجویز کی حیثیت عملی قدر و قیمت کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے جدید دنیا مسلم اور غیر مسلم دونوں کو اسلام کے قانونی ذخیرے کی لامحدود قدر و قیمت کا اندازہ ابھی لگانا ہے اور سرمایہ دارانہ دنیا کے لیے اس کی اہمیت کا بھی تعین کرنا ہے جس کے اخلاقی معیار کے اقتصادی رویے قابو سے باہر ہو گئے ہیں۔ اس مجلس سے مجھے یقین ہے کم از کم اس ملک میں اسلام کے معمول کے اصولوں کے بارے میں ایک گہری بصیرت اور سوجھ بوجھ پیدا ہو گی۔

علامہ نے جہاں فکری سطح پر قوم کو رہنمائی عطا کی وہاں عملی میدان میں بھی اپنے بیان کیے ہوئے اصولوں پر عمل کر کے دکھایا۔ 11 اکتوبر 1926ء کو ایک انتخابی جلسے میں انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا:میں نے مسلمانوں کو زندگی کی صحیح مفہوم سے آشنا کرنے، اسلام کے نقش قدم پر چلانے اور ناامیدی، بزدلی اور کم ہمتی سے باز رکھنے کے لیے نظم کو ذریعے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ میں نے پچیس سال تک اپنے بھائیوں کی مقدور بھر ذہنی خدمت کی اب ان کی بطرز سیاست عملی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کر رہا ہوں۔ اسلامیانِ ہند پر یہ عجیب دور گزر رہا ہے۔ 1929ء میں رائل کمیشن اس بات کا تعین کرے گا کہ آیا ہندوستان مزید رعایات و اصطلاحات کا مستحق ہے یا نہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں کبھی بھی اپنے مفاد کو قوم کے مفادات کے مقابلے میں کبھی بھی ترجیح نہیں دوں گا۔‘‘ علامہ اقبال نے مسلمانوں کی نجات اور حقیقی آزادی کے لیے جو راستہ چنا وہ مشرق و مغرب یا کسی غیر تہذیب کے کسی اصول کی پیروی نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کے اپنے تہذیبی روایت کے تحفظ کا اصول تھا۔ 19نومبر 1926ء کو ایک اجتماع عام سے خطاب کرتے ہوئے علامہ نے فرمایا:مسلمانوں کی زندگی کا راز اتحاد میں مضمر ہے۔ میں نے برسوں مطالعہ کیا، راتیں غور و فکر میں گزاریں تاکہ وہ حقیقت معلوم کروں جس پر کاربند ہو کر حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں تیس سال کے اندر پوری دنیا کے امام بن گئے۔ وہ حقیقت اتحاد و اتفاق ہے جو ہر شخص کے لبوں پر ہر وقت جاری رہتی ہے۔ کاش! یہ ہر مسلمان کے دل میں بھی بیٹھ جائے۔ مسلمانانِ ہند کے لیے دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ وہ ہندوستان کی سیاسیات کے ساتھ گہری دلی وابستگی پیدا کریں۔ جو لوگ خود اخبار نہیں پڑھ سکتے وہ دوسروں سے سنیں۔ اس وقت جو قوتیں کارفرما ہیں ان میں سے اکثر اسلام کے خلاف کام کر رہی ہیں لیکن لیظھرہ علی الدّین کلّہ کے وعدہ کی بنا پر میرا یہ ایمان ہے کہ انجام کار اسلام کی قوتیں ہی کامیاب و کامران ہوں گی۔

علامہ نے اپنے اشعار میں صرف اپنے دور میں ہی مسلمانوں کے مسائل کا ہی حل پیش نہیں کیا بلکہ ایک مثالی مسلم ریاست اور مسلم معاشرے کے خدوخال کیا ہو سکتے ہیں۔ اس کی تفصیلات بھی ان کے شعر میں جا بجا ملتی ہیں۔ اقبال کی شاعری دراصل ایک دور نو کی نوید ہے۔ جاوید نامہ میں علامہ نے اپنی مثالی مملکت کا ذکر کیا ہے اور اس کی تفصیلات بیان کیں اور اسے مرغدین کا نام دیا۔ یہ مثالی مملکت فی الاصل انسانیت کی منزل ہونی چاہیے اس مثالی مملکت مرغدین میں انسانی معاشرے کو درپیش اخلاقی، سماجی، معاشرتی اور دوسرے مسائل جو جس موثر انداز سے بیان کر کے ان کی حل کی طرف علامہ نے متوجہ کیا ہے وہ آج کے دور کے انسان کی آواز لگتی ہے اور اقبال کسی ایک خطے کے نہیں انسانیت کے شاعر کے طور پر سامنے آتے ہیں۔

صفَتِ برق چمکتا ہے مرا فکرِ بلند

کہ بھٹکتے نہ پھریں ظُلمتِ شب میں راہی

تازہ ترین