قومی شناختی کارڈ اور خواتین

October 19, 2021

نادرا کی جانب سے شادی شدہ خواتین کے لئے قومی شناختی کارڈ پر والد کے بجائے شوہر کا نام درج کرنے کی روایت کے خاتمے کا فیصلہ جس کا اعلان گزشتہ روز ادارے کے سربراہ طارق ملک نے 14ویں سالانہ دیہی خواتین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، خواتین کے حقوق کے حوالے سے یقیناً ایک لائقِ خیر مقدم اقدام ہے۔ نیشنل رجسٹریشن اینڈ ڈیٹا بیس کے سربراہ کے مطابق اب شادی شدہ خواتین کو شناختی کارڈ پر اپنے والد یا شوہر میں سے کسی ایک کا نام رکھنے کا اختیار حاصل ہوگا۔ انہوں نے صراحت کی کہ ’’شادی شدہ خواتین کی رجسٹریشن کے لئے قومی شناختی کارڈ میں والد کے بجائے شوہر کا نام درج کرانا رجسٹریشن اتھارٹی کے کسی قانون کے تحت ضروری نہیں تھا لیکن ایک غیرعلانیہ پالیسی کے تحت یہ عمل جاری تھا جسے اب ترک کردیا گیا ہے اور اس کے بعد خواتین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے خاندانی نام، والد کے نام یا شوہر کے نام کے ساتھ اپنی رجسٹریشن کروائیں، یہ ان کی مرضی ہے کسی مرد کی مرضی نہیں‘‘۔ فی الحقیقت شادی کے بعد خواتین کے نام میں شوہر کے نام کی شمولیت مغربی تہذیب کا رواج ہے اور وہیں سے مسلم دنیا اور مشرقی معاشروں میں درآمد ہوا ہے۔ تاہم صنفی مساوات کی علمبردار مغربی دنیا کا یہ طریقہ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کا واضح مظہر ہے جس سے شادی شدہ خواتین کے شوہر کی ملکیت ہونے کا تاثر ابھرتا ہے۔ شوہر سے علیحدگی یا دوسری شادی کی صورت میں خواتین اپنے نام میں بھی تبدیلی کی پابند ہوتی ہیں اور اس کے نتیجے میں انہیں انتہائی ناپسندیدہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صنفی مساوات کے مغربی دعوؤں کا تقاضا تو یہ تھا کہ شوہر کو بھی اپنے نام میں بیوی کا نام شامل کرنے کا پابند کیا جاتا لیکن جب ایسا نہیں تو خواتین کو بھی اپنے نام میں شوہر کے نام کی شمولیت کا پابند نہیں کیا جانا چاہئے۔ ان حقائق کی روشنی میں نادرا کا یہ فیصلہ بالکل درست اور حق بجانب ہے۔