عثمان بزدار اور محبتِ رسولﷺ

October 22, 2021

وہ اللہ کا نبی جو نبیوں کا سردار ہے، کائنات کیلئے مشعلِ راہ ہے، گرم دھوپ کے بعد ٹھنڈی چھائوں ہے، امید کی کرن ہے، ظلم کا خاتمہ کرنے والا، محبتوں کا پیکر ہے، مکمل ضابطہ حیات ہے، جس کا دنیا میں گزرا ایک ایک لمحہ قرآن تھا اور وہ ہستی جو ناطق قرآن ہے، اس کے بارے میں لکھنے والوں نے کیا خوب قصیدے لکھ چھوڑے، اقبال ہو یا کوئی اور شاعر محسنِ انسانیتﷺ کے بارے لکھے بغیر، یوں سمجھ لیں کہ شاعروں کی نوکری پوری نہیں ہوتی۔ میں بھی آقائے دوجہاں سرور کائنات حضرت محمدﷺ کا ایک ادنیٰ سا غلام ہوں، میری ساری تحریریں ایک طرف، اشعار ایک طرف، سب خزانے ایک طرف، یہ سب باتیں میرے قلم کی اس جنبش سے بہت چھوٹی رہ جاتی ہیں جو آقا کی شان کیلئے ہو، چاہے وہ ایک لفظ ہی کیوں نہ ہو، میرے آقا کی محبت میں میرے قلم کا حرکت میں آنا میری ساری زندگی کی جدوجہد سے افضل ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میں نے ربیع الاول کے آغاز سے جب بھی قلم اٹھایا ہے، بس پھر آقاﷺ کی نوکری کا فرض ہی ادا ہوا ہے۔

میری خالق سے دعا ہے کہ اس فرض کی ادائیگی میں مجھ سے کوئی کوتاہی نہ ہو، اس محبت کے دریا کو کچھ یوں عبور کر سکوں کہ سب پریشانیاں دھل جائیں، راتیں صبح میں ڈھل جائیں، ہم پیاسوں کو ان کی الفت کے جام مل جائیں، اس دنیا سے پھر چاہے آج جائیں یا کل جائیں، ساتھ نامِ مصطفیٰﷺ لے کر جائیں۔ اس محبت کا ایک الگ لطف ہے، سکون ہے بلکہ ہمیں تو ایک اعزاز حاصل ہے کہ ہم اس ہستی کے امتی ہیں، ایسے امتی جن کی شفاعت آپﷺ فرمائیں گے۔ اس رحمت اللعالمینﷺ کی محبت میں اور کیا لکھوں جن سے محبت کی مثالیں حضرت اویس قرنی جیسی ہستیوں نے قائم کیں۔ نہ میری یہ اوقات نہ میرے قلم میں اتنی طاقت کہ وہ اس محبت کا حق ادا کر سکے، چاہے پھر دنیا بھر کے سمندروں کا پانی شب کی سیاہی میں گھول دوں، یہ سیاہیاں، یہ کاغذ ختم ہوجائیں گے، قلم گھس جائیں گے، مگر فضائل محمد مصطفٰیﷺ مکمل نہ ہو پائیں گے۔ہم کیونکہ پچھلی صدی کی پیداوار ہیں، ہم اسلامی محافل کا حصہ رہے ہیں، اس لئے رسول پاک ﷺ کی شان اقدس سے عشق کے رشتے کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیمات بھی جانتے ہیں۔ اس کے برعکس نئی آنے والی نسل محبت رکھتی ہے لیکن شاید معرفت اور تعلیمات سے لا علم ہے۔ ہمارے دور میں پڑھنے کے علاوہ اور بھی کام ہوتے تھے، آج کل اسکول سے دفاتر تک ایک ایسی دوڑ ہے جس میں ہر شخص اس حد تک مصروف ہے کہ وہ ہر قسم کی تعلیمات حاصل کر رہا ہے مگر جو ہماری اخلاقی اقدار ہیں یا حضور پاکﷺ کی تعلیمات ہیں ان کو جاننے کا نہ ٹائم ہے ان کے پاس اور نہ ہی کوئی مواقع میسر ہیں۔

اس لئے مجھے وزیر اعلیٰ پنجاب کی کاوش ایک انتہائی اہم اقدام نظر آتی ہے۔ عشرہ رحمت اللعالمین ﷺ کے ذریعے وہ اس نا دانستہ قطع تعلقی کو رابطوں میں بدل رہے ہیں۔ عام لوگوں اور نوجوانوں میں آقاﷺ کی تعلیمات حاصل کرنے اور اپنا طرز زندگی بہتر بنانے کا جذبہ جواں کرنے کیلئے متعدد سرگرمیوں کا آغاز کر رہے ہیں۔ ربیع الاول کے اس پر مسرت موقع پر نوجوانوں کیلئے مواقع پیدا کئے جارہے ہیں کہ وہ آپؐ کی تعلیمات تک رسائی حاصل کرسکیں، سیکھ سکیں اور سکھا سکیں، اس امن اور بھائی چارے کے پیغام کو جو صدیوں پہلے حضورؐکے علم کی روشنی سے پھیلا۔

عثمان بزدارنے ربیع الاول کو کسی سالانہ تہوار یا جشن کی شکل نہیں دی بلکہ ایک لرننگ ایکسپیرینس بنا دیا ہے۔ بات صرف برقی قمقموں کی نہیں، بات علم کے چراغوں کی ہے جو عثمان بزدار کی کاوش سے حضور پاکﷺ کے نام پر جل رہے ہیں۔ ویسے تو پنجاب میں جتنے بھی فلاحی کاموں کا آغاز ہوا ہے، ان سب میں عثمان بزدار کی ذاتی دلچسپی اور محنت نظر آتی ہے مگر اس عشرہ کی بات بہت مختلف ہے۔ سارے اقدامات ایک طرف اور یہ عشرہ ایک طرف، یہ عشرہ معاشرہ تشکیل دے گا جس سے لوگوں میں صبر، برداشت، ایمانداری، حب الوطنی اور احساس جیسی خوبیاں اجاگر ہوں گی، نفرتوں کا جواب محبتوں سے دیا جائے گا۔

مجھے انتہائی خوشی ہے کہ عثمان بزدارکو اس کی اہمیت کا اندازہ ہے، وہ جس طرح خود متحرک ہیں، انہوں نے پوری فیلڈ فورس اور بیوروکریسی کو بھی متحرک کیا ہوا ہے، چاہے پھر وہ سول سیکرٹریٹ کی مسجد ہو یا کسی بھی چھوٹے ضلع کاا سکول، بیوروکریسی ہر جگہ بھرپور انداز میں رسول پاک ﷺ کا پیغام اجاگر کرنے کیلئے مصروف عمل ہے۔ اسکولوں کالجوں میں نعتیہ مقابلے اور مشاعرے ہورہے ہیں، اساتذہ طلبہ کی کریکٹر بلڈنگ کیلئے کائنات کا سب سے بلند کریکٹر رکھنے والے کی مثال دے رہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی ذات پر ریسرچ کیلئے پنجاب کی 6 یونیورسٹیوں میں سیرت چیئرز قائم کردی گئی ہیں۔ ایک ارب روپے کی لاگت کے رحمت اللعالمینﷺ اسکالرشپ پروگرام کا آغاز کردیا گیا ہے، ہزاروں ذہین اور نادار طلبہ کو انٹرمیڈیٹ اور گریجویٹ تعلیم کیلئے اسکالرشپس دئیے جا چکے ہیں۔ علماء و مشائخ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ہے ، تمام مرکزی محافل میں، محفل سماع میں، کیلیگرافی نمائش میں، ہر ایونٹ میں وزیر اعلیٰ نے خود بھی شرکت کی اور تو اور اپنی فیملی کے ہمراہ کاشانہ کا دورہ بھی کیا اور بچیوں میں تحائف تقسیم کئے، اس محبت اور شفقت کا اظہار کیا جو حضور ﷺ کی تعلیمات ہیں۔ اور ان مٹھائیوں اور لنگر کی رسائی جیلوں تک بھی یقینی بنائی، جیلوں میں اس موقع پر خصوصی کھانے کا انتظام کیا گیا اور خصوصی مینو کی منظوری دی گئی۔ یہ رحمتوں اور برکتوں کا ایسا مہینہ ہے جس سے بلا تفریق ہر شخص مستفید ہو سکتا ہے اور پورے سال ان تعلیمات کا عملی نمونہ بن کر دکھانا، یہی ان اقدامات کا اصل مقصد ہے۔ مجھے انتہائی خوشی ہے کہ یہ عشرہ جوش و خروش کے ساتھ ساتھ اس نیت سے بھی منایا گیا ہے کہ ریاست مدینہ بنانے کا خواب پورا ہوسکے، معاشرےمیں تبدیلی آسکے، چاہے پھر وہ بیوروکریسی ہو یا سڑک پر دکان لگانے والا سبزی فروش، سب کے اندر فرض شناسی اور ایمانداری کا عنصر غالب آسکے۔ اگر اسی طرح عثمان بزدار اس پروگرام کو وسعت دیتے رہے تو یہی پروگرام تبدیلی کا نشان ثابت ہوگا۔ ان شاء اللہ!