’’وفیاتِ مشاہیر لاہور‘‘ سے ’’خالصتان ‘‘تک

October 24, 2021

قارئین!

کل کے کالم میں میں نے ڈاکٹر محمد منیر احمد کی ایک ریسرچ اورئینٹڈ کتاب کا ذکر کیا جس کا عنوان تھا ’’وفیاتِ مشاہیر لاہور‘‘۔ کتاب تو بے شک قابل تعریف ہے لیکن اس میں دو غلطیوں کی نشاندہی کرنابھول گیا جس پر معذرت خواہ ہوں۔ مصنف سے بھی گزارش ہے کہ اس پر غور فرمائیں۔ پہلی غلطی کا تعلق عصر حاضر کے منفرد شاعر نذیرقیصر کے ساتھ ہے جو اللہ کے فضل وکرم سے نہ صرف زندہ ہیں بلکہ زندہ شاعری بھی تخلیق کر رہے ہیں۔ صفحہ 393 پر ان کے بارے میں درج ہے :

’’نذیر قیصر، ڈاکٹر

ممتاز ماہر تعلیم، محقق، مصنف، ماہر اقبالیات، دانشور، بانی پرنسپل سرسید کیمبرج سکول لاہور۔ مسیحی نعت گو شاعر، شعری کتب:’’آنکھیں چہرہ ہاتھ‘‘ غزلیات (1968)۔ ’’گنبد خوف سے بشارت‘‘، ’’اے شام ہم سخن ہو‘‘، ’’تمہارے شہر کا موسم‘‘، ’’اے ہوا موذن ہو‘‘، ’’نئے عہد کے گیت‘‘، ’’زیتون دی پتی‘‘۔پنجابی شاعری ’’قسم فجر دے تارے دی‘‘ وغیرہ۔

شاید ناموں میں مماثلت کی وجہ سے شدید قسم کا کنفیوژن پیدا ہوگیا ہے۔ فاضل مصنف خود تصدیق کرکے تصحیح فرما لیں کیونکہ شاعر نذیر قیصر اور خاکسار چند ہفتے قبل ہی اکٹھے تھے بلکہ ان کی بیگم اور صاحبزادی بھی موجود تھیں۔ ہاں وہ مسیحی اور بے مثال نعتوں کے شاعر ضرور ہیں۔

کتاب کے صفحہ نمبر 401 پر نگار زریں شاہد مرحومہ کا ذکر ہے جو ہماری فیملی فرینڈ تھیں۔ روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے علاوہ ان کی وجہ شہرت ریڈیو پاکستان لاہورسے صدا کاری بھی تھی۔ ان کا ایک پروگرام بہت مقبول تھا جو شاید ’’پنجابی دربار‘‘ کے نام سے جانا جاتا۔ نگار زریں شاہد کو ’’شاہد‘‘ کی وجہ سے نامور صحافی، مصنف، دانشور اور ’’خبریں‘‘ کے ایڈیٹر انچیف ضیا شاہد مرحوم کی زوجہ قرا دیا گیا جو بالکل بے بنیاد اور غلط ہے۔ وجہ غالباً یہ ہوئی کہ نگار زریں شاہد مرحومہ نے جن صاحب سے شادی کی ان کا نام بھی شاہد تھا جن کا لکھنے لکھانے اور صحافت سے دور پار کا بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔ ممتاز صحافی ضیا شاہد مرحوم کی اہلیہ محترمہ اور ہماری بھابی کا نام یاسمین ہے، جو سرکاری ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنےشوہر ضیا شاہد کی صحافتی سرگرمیوں میں بھی ان کا ہاتھ بٹاتی رہیں اور ماشا اللہ زندہ ہیں۔ ان کا صاحبزادہ امتنان شاہد ’’خبریں‘‘ کا ایڈیٹر انچیف ہے۔ چاہیں تو ان سے پوچھ لیں۔

کتاب پر مصنف ڈاکٹر منیر صاحب کو میں گزشتہ کالم میں بھی خراج تحسین پیش کر چکا ہوں۔ ایسی زبردست ریسرچ میں دو چار غلطیاں اس کتاب کی اہمیت و افادیت پر خراش کی سی حیثیت بھی نہیں رکھتیں لیکن اتنے اعلیٰ عمدہ کام میں چھوٹی موٹی غلطی بھی کھٹکتی ہے ، جیسےسفید چادر پر ایک ننھا منا سا دھبہ بھی بہت نمایاں نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو میری بات گراں گزرے تو میں ان سے بھی معذرت خواہ ہوں۔

قارئین!

سمجھ نہیں آرہی کہ کدھر جائوں اور کیا کرو ں کیونکہ تقریباً پونا کالم تو یہ وضاحت کھا گئی سو اب لسی میں پانی بڑھانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں اس لئے چند خبروں پر تبصرہ کرکے اپنے کالم کا ’’سٹینڈرڈ سائز‘‘ قائم رکھنے کی کوشش کروں گا۔

پہلی خبر خوشگوار ہے۔ انگلینڈ میں سکھ صاحبان نے 31اکتوبر کو بھارت کے خلاف ریفرنڈم کا اعلان کرتے ہوئے علیحدہ وطن کا نقشہ جاری کردیا ہے جس میں مشرقی پنجاب کے علاوہ راجستھان، اترپردیش، ہریانہ، ہما چل پردیش کو بھی ’’خالصتان‘‘ کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے کوئین الیزبتھ سنٹر میں ووٹنگ کا آغاز ہوگا۔ پرم جیت سنگھ کا کہنا ہے کہ سکھ ہر قیمت پر آزادی حاصل کرکے رہیں گے۔ رب سے دعا ہے کہ سکھ صاحبان اپنے مقصد میں کامیاب ہوں۔ میں ذاتی طور پر خارجہ امور اور ڈپلومیسی کی الف بے سے بھی واقف نہیں لیکن اک پاکستانی کے طور پر نہ مجھے کبھی ’’سقوط ڈھاکہ‘‘ میں بھارت کا مجرمانہ و منافقانہ کردار بھولتا ہے اور نہ ہی کشمیر اور کشمیریوں پر ظلم کی انتہائوں کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے لیکن حکومتوں کا اپنا دماغ، اپنی دنیا اور اپنے مخصوص دائرے ہوتے ہیں۔ میری تو بس اتنی ہی خواہش ہے کہ بیرون ملک جتنے بھی پاکستانی ہیں ہرطرح سکھ برادری کوسپورٹ کریں کہ آزادی ہر انسان کاپیدائشی حق ہے۔

قدم بڑھائو پرم جیت سنگھ! ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔

رہ گئی اپوزیشن تو کیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ان کے ’’ورکرز‘‘ کے علاوہ جینوئین عوام ان کے نام نہاد احتجاجوں میں شامل ہونے کی غلطی نہیں کریں گے کیونکہ بنیادی طور پر انہی لوگوں نے پاکستان کو یہاں تک پہنچایا ہے البتہ حکومت کو اگر کوئی خطرہ ہے تو صرف اپنے آپ، اپنے کرتوتوں، غیر ضروری مہم جوئیوں اور لمبے قد والے بونوں سے ہے۔ باقی جو کرے کرتار!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)