بھوپال کا شہزادہ ڈاکٹر عبد القدیر خان

October 24, 2021

ڈاکٹر عبدالقدیر خان جہاں ایٹمی سائنسدان تھے وہاں شاعرانہ ذوق بھی رکھتے تھے، انہوں نے 13اپریل2012کو اپنے ہی ایک شعر میں غمِ حیات بیان کر دیا:

گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیرؔ

ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے

اتوار کی سہ پہر مارگلہ کے پہاڑوں پر گہرے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے، چار سُو اندھیرا ہی اندھیرا تھا، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ آج جہاں اسلام آباد کی فضا سوگوار ہے، وہاں مارگلہ کے پہاڑوں نے بھی محسنِ پاکستان کی رحلت پر سیاہ چادر اوڑھ لی ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا جنازہ فیصل مسجد سے چند قدموں کے فاصلے پر ان کی رہائش گاہ 207ہل روڈ سے اٹھایا گیا تو آسمان بھی ایسا رویا کہ پورا اسلام آباد جل تھل ہو گیا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے آج آسمان بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے دنیا سے اٹھ جانے پر پر رو رہا ہے۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان کی نماز جنازہ کی ادائیگی تک عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر فیصل مسجد کی طرف رواں دواں رہا، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پورا راولپنڈی اور اسلام آباد فیصل مسجد کی جانب امڈ آیا ہے۔ سیکورٹی کے انتظامات سے اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ شاید صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، وزیراعظم عمران خان اور دیگر اہم شخصیات بھی جنازےمیں شرکت کریں گی لیکن وہ آئے اور نہ ہی کوئی وی وی آئی پی آیا صرف وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد بہ نفس نفیس موجود تھے کیونکہ ان کی نگرانی میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تدفین ہونا تھی البتہ کراچی سے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے خصوصی طور پر شرکت کرکے ڈاکٹر خان سے اپنی محبت کا اظہار کردیا۔ اسی طرح اپوزیشن کے کسی بڑے لیڈر نے بھی جنازہ میں شرکت نہیں کی۔ جماعت اسلامی کے وفد نے لیاقت بلوچ کی قیادت میں شرکت کی۔ بظاہر سیکورٹی کے خصوصی انتظامات کے باوجود جنازہ کے وقت بدنظمی دیکھنے میں آئی جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد انتظامیہ کوئی غیرمعمولی انتظامات نہیں کر سکی، لاؤڈ اسپیکرز کا کوئی مناسب انتظام نہیں تھا جس کے باعث متعدد لوگوں کو نماز جنازہ کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جنازہ سے قبل سرکاری طور پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تدفین فیصل مسجد کے احاطہ میں جنرل ضیاء الحق کی قبر کے قریب کی جائے گی، دوسری طرف ایچ8 قبرستان میں قبر کی کھدائی کر دی گئی تھی۔ کنفیوژن کی فضا تھی لیکن جنازے سے کچھ دیر قبل کہا گیا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی فیملی کی خواہش کے مطابق تدفین کی جگہ کا انتخاب کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ایک خط کا بھی سہارا لیا گیا جس میں یہ تاثر دیا گیا تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے خود ایچ 8قبرستان میں تدفین کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کووڈ 19سے صحت یاب ہونے کے بعد اپنے گھر پر مقیم تھے، انہوں نے اپنی وفات سے ایک ہفتہ قبل ایک خط لکھا جس میں انہوں نے اپنی تدفین کے لئے جگہ کا انتخاب کیا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اپنی روانگی کا پیغام مل چکا تھا۔ انہوں نے اپنی فیملی کو اپنے فیصلے سے آگاہ کردیا تھا۔ یہ درست ہے ڈاکٹر خان کو سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا لیکن ان کے جنازے میں صدر و وزیراعظم سمیت اہم شخصیات کی کمی محسوس کی گئی۔ البتہ عوام نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو جس شان سے رخصت کیا اور اپنے جذبات کا اظہار کیا اس سے ان پر 18سال قبل لگائے گئے تمام الزامات دھل گئے۔ وہ لوگ بھی ان کی شان میں قصیدے پڑھ رہے تھے جو ایک وقت میں ان پر نیوکلیئر ٹیکنالوجی برآمد کرنے اور مال بنانے کا الزام عائد کر رہے تھے۔ عوام کی طرف سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جنازے میں بھرپور شرکت نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کی سچائی کی گواہی دے دی ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وفات سے نہ صرف ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے بلکہ عالم اسلام اپنے ایک خیر خواہ کی سرپرستی سے محروم ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی جوانی ایٹمی پروگرام کے لئے وقف کر دی اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد سیکورٹی کے نام پر18سال قید میں گزار دیے۔ لاکھوں ڈالر کمانے والا شخص محض پاکستان کو دفاعی لحاظ سے مستحکم بنانے کے لئے اپنا سب کچھ چھوڑ کر وطن واپس آگیا۔ چند ہزار روپوں کی سرکاری ملازمت اختیار کر لی ان کی تنخواہ اور پنشن اتنی کم تھی جسے وہ کسی کو بتاتے ہوئے بھی شرماتے تھے۔ جب امریکہ نے ایران اور لیبیا کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے کے لئے کارروائی شروع کی تو پرویز مشرف نے اپنے آپ کو بچانے کے لئے ایران اور لیبیا کو نیوکلیئر ٹیکنالوجی دینے کا الزام ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر لگا دیا۔ میرا ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ 36سال کا تعلق تھا میں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے بارہا یہ پوچھا کہ آپ نے پرویز مشرف کے دباؤ اور چوہدری شجاعت حسین کے اصرار پر کیوں یہ الزام اپنے سر لے لیا؟ انہوں نے کہا کہ میں نے پاکستان کو بچانے کے لئے ایٹمی ٹیکنالوجی برآمد کرنے کا الزام قبول کر لیا مجھے کہا گیا کہ اگر میں الزام قبول نہ کرتا تو پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا، اس میں حقیقت کیا ہے سب کو معلوم ہے، انہوں نے ایک ہی جملے میں حقیقت بیان کر دی کہ میں تو ایک سرکاری ملازم تھا مجھے اوپر سے جو حکم ملا وہ کر دیا اس کے سوا میرا کوئی رول نہیں تھا۔ بھلا میں سینٹری فیوج مشینیں اٹھا کر دنیا میں فروخت تونہیں کر سکتا تھا۔

(جاری ہے)