سیاسی حکومت کا پہلا اقدامِ خودکشی

November 26, 2021

برِصغیر ہند میں تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی حالات کے باعث قائدِاعظم کو آل انڈیا مسلم لیگ کے کارکنوں کی سیاسی تربیت کا وقت ہی نہیں ملا تھا۔ اُنہوں نے 1935میں اِس جماعت کے صدر منتخب ہوتے ہی اُسے مسلمانوں کی عوامی جماعت بنانے کے لیے دن رات ایک کر دیا تھا۔ پانچ ہی برس بعد قراردادِ لاہور منظور ہو گئی تھی اور سات سال کے اندر ہی پاکستان وجود میں آ گیا تھا۔ اِس کے قیام کے ایک ہی سال بعد قائدِاعظم اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے۔ اُنہوں نے اپنے عظیم الشان کردار سے یہ واضح کر دیا تھا کہ زندگی میں حقیقی کامیابی اعلیٰ درجے کی اصول پسندی، اخلاقی برتری اور مستقل مزاجی میں مضمر ہے۔

مطالبۂ پاکستان کی عوام کے اندر جوں جوں مقبولیت بڑھتی گئی، موقع پرست لوگ اُسی تیزی سے مسلم لیگ میں شامل ہوتے گئے اور جوڑ توڑ کر کے، مسلم لیگ کے مخلص کارکنوں کو پیچھے دھکیل کر اِقتدار پر قابض ہو گئے۔ اِس غیرسیاسی روش نے اقتدار کی کشمکش کو جنم دیا۔ پنجاب میں وزیرِاعلیٰ پنجاب افتخار حسین ممدوٹ کے مدِمقابل میاں ممتاز دولتانہ اور سردار شوکت حیات آن کھڑے ہوئے۔ وزیرِاعلیٰ سرحد خان عبدالقیوم خاں نے سیاسی مخالفین پر اِس قدر ظلم ڈھائے کہ تحریکِ پاکستان کے معروف قائد پیر مانکی شریف بلبلا اُٹھے اور حزبِ اختلاف کی تنظیم کے مشن پر چل نکلے۔ سندھ کے وزیرِاعلیٰ ایوب کھوڑو قائدِاعظم سے اِس بات پر بگڑ بیٹھے کہ اُنہوں نے سندھ اسمبلی کی عمارت قومی اسمبلی کے لیے مستعار لے لی ہے اور سندھ سیکرٹریٹ کی عمارت میں پاکستان سیکرٹریٹ قائم کر دیا ہے۔ اُنہیں یہ سب کچھ اِس لیے کرنا پڑا تھا کہ پاکستان کا اُس وقت کوئی دارالحکومت تھا نہ دستورساز اسمبلی کی عمارت دستیاب تھی۔

اِس بےسروسامانی کے باوجود وزیرِاعظم لیاقت علی خان اور اُن کے رفقائےکار نے پاکستان کو انتظامی اور معاشی طور پر اَپنے قدموں پر کھڑا کرنے کے لیے شبانہ روز محنت کی۔ ساٹھ ستر لاکھ مہاجرین اعلیٰ منصوبہ بندی اور حُسنِ انتظام سے آباد کیے جا رہے تھے۔ کٹے پھٹے پاکستان کے زخم مندمل ہونے لگے تھے اور اچھے نظم و نسق کے باعث معاشی حالات اِس قدر بہتر ہوئے کہ پاکستان نے 1954میںاپنے روپے کی قدر بڑھا دی جس سے بھارت کی عالمی برادری میں بڑی سبکی ہوئی تھی اور اُس نے پاکستان پر فوج کشی کا الٹی میٹم دے دیا تھا۔ نئی مملکت کی یہ عظیم الشان کامیابیاں عوام و خواص کی عظیم قربانیوں اور اَن تھک محنت کا ثمر تھیں، تاہم یہ خطرہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ اربابِ حکومت کی دستورسازی میں غفلت کے نتیجے میں گمبھیر مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ اِس خدشے کی روک تھام کے لیے سید ابوالاعلیٰ مودودی نے قراردادِ مقاصد کی بنیاد پر 8نکات پر مبنی دستور کے مطالبے پر عوام کے دستخطوں کی مہم شروع کر دی تھی۔ دستور ساز اسمبلی کے معزز رُکن مولانا شبیر احمد عثمانی نے ایک انٹرویو میں یہ حقیقت بیان کی تھی کہ ہمیں دستخط شدہ فارم بوریوں میں وصول ہوتے تھے۔ اِس عوامی مہم سے مولانا کا اوّلین مقصد یہ تھا کہ حکمرانوں کے احتساب اور عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا ایک مضبوط نظام جلد از جلد وجود میں آ جائے۔

مولانا مودودی اپنے شائستہ مزاج اور پُرامن فلسفۂ سیاست کے تحت مکالمے پر یقین رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب 1952کے اختتام پر قادیانیوں کو اقلیت قرار دَینے کے مطالبے میں تشدد غالب آ گیا، تو جماعتِ اسلامی نے اُس تحریک سے الگ تھلگ رہنے کا فیصلہ کیا۔ وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں ممتاز دولتانہ کی سیاسی مہم جوئی سے لاہور کی صورتِ حال قابو سے باہر ہوتی گئی۔ وزیرِاعظم خواجہ ناظم الدین نے اِس انتہائی سنگین صورتِ حال پر غور و خوص کے لیے گورنر ہاؤس لاہور میں اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کیا جس میں سیاسی اور اِنتظامی زعما کے علاوہ فوج کی طرف سے سیکرٹری دفاع میجر جنرل اسکندر مرزا شریک ہوئے۔ تاریخ میں یہ واقعہ محفوظ ہے کہ جب بحث طویل ہو گئی، تو اسکندر مرزا اُٹھ کر باہر چلے گئے اور پندرہ بیس منٹ بعد واپس آئے۔ اُنہوں نے حاضرین کو مطلع کیا کہ میں نے لاہور میں مارشل لا لگانے کے لیے جی او سی میجر جنرل اعظم کو احکام دے دیے ہیں اور جلد ہی حالات معمول پر آ جائیں گے۔ حاضرین نے اُن کی طرف تحسین بھری نظروں سے دیکھا اور وُہ نہایت سادگی سے اقدامِ ’’خودکشی‘‘ پر آمادہ ہو گئے۔

لاہور میں مارشل لا کے نفاذ کے باوجود وزیرِاعظم خواجہ ناظم الدین مارچ کے آخر میں قومی اسمبلی سے بجٹ منظور کرانے میں کامیاب ہو گئے جو اعتماد کے ووٹ کے مترادف تھا، لیکن اُنہیں گورنر جنرل نے 17؍اپریل 1953کو اپنے ہاں طلب کیا اور کابینہ سمیت برطرف کر دیا۔ واقفانِ حال لکھتے ہیں کہ یہ غیرآئینی قدم کمانڈر اِن چیف جنرل ایوب خان کی منظوری سے اُٹھایا گیا تھا، کیونکہ وہ اِس بات پر وزیرِاعظم سے ناراض تھے کہ دفاعی بجٹ میں ایک تہائی تخفیف کر دی گئی ہے۔ مارشل لا کے خلاف اور سول اتھارٹی کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے سب سے پہلے سید ابوالاعلیٰ مودودی نے مارشل لا کے خلاف انتہائی سخت بیان جاری کیا جس پر اُنہیں سات سال قیدِ مشقت کی سزا سنائی گئی اور دُوسرے مقدمے میں اُنہیں اور مردِمجاہد مولانا عبدالستار خان نیازی کو سزائے موت بھی سنائی گئی۔ وہ دونوں کمال استقامت کے ساتھ مقتل کی طرف گئے تھے۔

اِس سے قبل وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں ممتاز دولتانہ نے مارشل لا کے نفاذ کے فوراً بعد پریس کانفرنس سے خطاب کیا جس میں میرے بڑے بھائی اعجاز حسن قریشی ’تسنیم‘ کے چیف رپورٹر کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ دولتانہ صاحب نے مارشل لا کے جواز میں دلائل کے انبار لگا دیے۔ اعجاز صاحب نے اُنہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’میاں صاحب! آپ نے اپنی اور سیاسی جماعت کی خودکشی کے پروانے پر دستخط ثبت کر دیے ہیں۔ اب اِقتدار غیرسیاسی طاقتوں کی طرف منتقل ہو جائے گا۔ آئندہ اُنہی کی حکومتیں قائم ہوں گی اور وُہ گاہے گاہے کٹھ پتلی حکومتوں کا انتظام بھی کرتی رہیں گی۔‘‘ اِن ریمارکس پر میاں ممتاز دولتانہ بہت جزبز ہوئے، کیونکہ حکمران حقیقی خیرخواہوں کو ہمیشہ اپنا دشمن گردانتے رہے ہیں۔ امر واقعہ یہی ہے کہ میجر جنرل اسکندر مرزا نے سیاست دانوں کو اختیار سے محروم کرنے کی بنیاد رَکھ دی تھی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)