’بانو قدسیہ‘ تہذیبی اور ثقافتی روایات کی علمبردار ممتاز ادیبہ اور ناول نگار

November 28, 2021

پاکستان اس حوالے سے خوش قسمت رہا ہے کہ اسے ہر دور میں قومی زبان اردو کی آبیاری کرنے والے اعلیٰ پائے کے ادیبوں اور شاعروں کا وجود میسّر رہا ہے۔ اردو ادب کی بات کریں تو ہمارے ادیبوں نے ادب میں ایسے شاہکار پیش کیے ہیں، جن کا مطالعہ کرکے قارئین کی سوچ کے دریچے کھل جاتے ہیں۔ ان ہی ادباء میں سے ایک بانو قدسیہ بھی ہیں، جنھوں نے فکشن، معاشرتی و سماجی مسائل اور عورت کے عزم و ہمت کی داستان رقم کی۔

بانو قدسیہ نہ صرف اپنے اسلوب بیاں میں منفرد تھیں بلکہ ان کی شخصیت بھی عظیم اور پُروقار تھی۔ لوح و قلم کو اپنا شعار بنانے والی بانو قدسیہ نے خواتین کے مسائل پر بھی کُھل کر لکھا۔ وہ اکثر والدین کو بچوں کی پرورش کے حوالے سے مفید مشورے بھی دیتی تھیں۔ ان کی تحریر اور گفتگو کا محور گھر میںکی جانے والی بچوں کی تربیت اور مذہب کی پیروی ہوتا تھا۔

ان کے نزدیک بہترین تعلیم و تربیت نہ صرف بچوں کو دنیا کے چیلنجز سے نمٹنے میںمدد دیتی ہے بلکہ ایک مطمئن اور مسرور زندگی کا راستہ بھی دکھاتی ہے۔ مگر اس کا انحصار بھی والدین کی تربیت پر ہوتاہے، جو اپنی ثقافت کے پروردہ ہوں، اپنی مٹی سے جڑے اور دین و دنیا کو ساتھ لے کر چلتے ہوں۔

ابتدائی زندگی

اردو اور پنجابی زبان کی مشہور و معروف ناول نگار، افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس بانو قدسیہ28نومبر 1928ء کو مشرقی پنجاب کے شہر فیروزپور (بھارت) میں ایک ایک ممتاز علمی وا دبی گھرانے میں پیدا ہوئیں، جس نے تحریک ِپاکستان میں بھر پور حصہ لیا ۔ ان کے والد چوہدری بدرالزماں چٹھہ نے زرعی سائنس میں بیچلر کی ڈگری حاصل کررکھی تھی جبکہ والدہ ذاکرہ بیگم بھی تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔

بانو قدسیہ جب ساڑھے تین سال کی تھیں تو اُن کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ہندوستان میں صوبہ ہماچل پردیش کے شہر دھرم شالہ میں ان کا تعلیمی سلسلہ جاری رہا۔ پانچویں جماعت میں ہی انھوں نے مختصر کہانیاں لکھنا شروع کر دی تھیں۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کرکے لاہور آ گئیں، جہاں انھوں نے 1949ء میں کینیرڈ کالج لاہور برائے خواتین سے ریاضیات اور اقتصادیات میں گریجویشن مکمل کیا۔

وہ اپنے کالج کے میگزین اور دوسرے رسائل کے لیے بھی لکھتی رہیں۔ بعد ازاں انہوں نے 1951ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی۔ وہیں ان کی ملاقات مشہور ناول و افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس اشفاق احمد سے ہوئی، جو اس وقت ان کے ہم جماعت تھے۔ اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں گہری دلچسپی لینے والی یہ دونوں شخصیات 1956ء میں ایک دوسرے سے رشتہ ازدواج میں بندھ گئیں۔

ادبی خدمات

بانو قدسیہ کو ابتدا سے ہی تخلیق ادب سے گہری دلچسپی تھی۔ 1950ء میں ایم اے اردو کرنے کے دوران ہی لاہور سے شائع ہونے والے ممتاز ادبی مجلہ ’’ادب لطیف ‘‘ میں ان کا پہلا افسانہ ’واماندگی ٔشوق‘ شائع ہوا۔ اس کے بعد بانو قدسیہ نے کئی ناول لکھے، جن میں راجہ گدھ، بازگشت، امربیل، آتش زیرپا، آدھی بات، دوسرا دروازہ، تمثیل، حاصل گھاٹ، توبہ شکن اور توجہ کی طالب قابلِ ذکر ہیں۔ 1981ء میں شائع ہونے والا ’راجہ گدھ‘ ان کا سب سے مشہور و مقبول ناول ہے، جس نے انھیں شہرت و مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچادیا۔

دنیا بھر میں اس ناول کو زبردست پزیرائی ملی اور اس کا دیگر کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ بانو قدسیہ نے ناول نگاری کو سادہ اور جدید وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھتے ہوئے اردو میں انگریزی زبان کے الفاظ کی آمیزش بھی کی، جو موجودہ دور کا رواج ہے۔ ناول میں انگریزی الفاظ کا بکثرت استعمال تعلیم یافتہ اور اعلیٰ طبقے کی نمائندگی کرتا ہے، جو حقیقت کا رنگ بھرنے اور کہانی میں ماحول کی آبیاری کے لئے انتہائی ضروری تصور کیا جاتا ہے۔

بانو قدسیہ کو اردو اور پنجابی زبان پر عبور حاصل تھا، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ان دونوں زبانوں میں ریڈیو اور ٹی وی کے لیےکئی ڈرامے بھی لکھے۔ ان کے ڈرامے ’آدھی بات‘ کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ ان کے تحریر کردہ ڈرامے سماجی مسائل پر صحت مندانہ انداز میں نظر ڈالتے اور قدروں کی اہمیت بڑی خوبی سے اجاگر کرتے تھے۔

اشفاق احمد کی بنائی گئی فلم ’’دھوپ سائے ‘‘کی کہانی بھی بانو قدسیہ نے لکھی تھی۔ بانو قدسیہ علم و ادب سے قلبی وابستگی رکھتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ ان کا مطالعہ بھی بہت وسیع تھا۔ وہ دنیا کے مختلف ممالک سے شائع ہونے والے ممتازعلمی و ادبی مجلات کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتی تھیں۔

اعزازات

بانو قدسیہ کی علمی، ادبی اور قومی خدمات تاریخ ادب کا ایک درخشاں باب ہیں۔ 2003ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے بانو قدسیہ کو ستارۂ امتیاز جبکہ 2010ء میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔ 2012ء میں انھیں کمالِ فن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ 2016ء میں انھیں اعزازِ حیات (Lifetime Achievement Award) سے نوازا گیا۔

اس کے علاوہ، بہترین ٹی وی ڈرامے تخلیق کرنے پر انھوں نے کئی دیگر ایوارڈز بھی اپنے نام کیے۔ دنیا بھر کے ادیب ان کے معتقد تھے اور انھیں ’بانو آپا‘کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ پاکستان کی یہ عظیم محب وطن ادیبہ 4فروری 2017ء کو لاہور میں اپنے خالقِ حقیقی سے جاملیں۔