عوامی ٹرانسپورٹ۔ مخیّر حضرات کی منتظر

November 28, 2021

دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ سامنے ایک خاتون برقع میں اور ایک نو عمر ڈوپٹے سے سر ڈھانکے ہوئے۔ 9ماہ سے 15سال تک کے بچوں کو خسرہ اور روبیلا کے ٹیکے لگانے کے لیے رابطہ کررہی ہیں۔

مجھے اپنے وطن کی یہ بیٹیاں قابلِ احترام لگتی ہیں کہ بہت ہی نامساعد حالات کے باوجود وہ اجنبی محلّوں میں یہ خدمات انجام دیتی ہیں۔ میں انہیں ڈرائنگ روم میں عزت سے بٹھاتا ہوں۔ کتنی گلیاں گھوم چکی ہیں۔ انہیں ٹھنڈا پانی چاہئے۔ وہ حیران ہوتی ہیں کہ لوگ تو دروازے کے باہر سے ہی انہیں بھیج دیتے ہیں۔

پولیو کے لیے کام کرتی بہنیں بیٹیاں۔ بس سروس میں میزبان بیٹیاں۔ کوریئر کا سامان پہنچاتے نوجوان یہ سب لائق تحسین ہیں۔ یہ آپ کی سہولت کے لیے محنت کررہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔

آج اتوار ہے، اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں اور نواسوں نواسیوں کی باتیں سننے کا دن۔ جس طرح ایک گھر ان کو تحفظ دیتا ہے گھر کا ایک سربراہ ہوتا ہے۔ وہ ان کی ضروریات، ناشتے، دوپہر شام کے کھانوں، کپڑوں، اسکول کالج یونیورسٹی آنے جانے کا بندوبست کرتا ہے۔ ایک مستقبل اس کی تحویل میں پرورش پارہا ہے۔ وہ اپنے اس آئندہ کو ہر طرح، مستحکم اور روشن بنانے کے لیے سرگرم رہتا ہے۔

اسی طرح ایک ریاست ایک مملکت ہوتی ہے جسے وہاں کے عوام اپنے باپ، اپنی ماں کی طرح سمجھتے ہیں۔ ریاست کا وجود صدیوں بعد اس لیے عمل میں آیا کہ وہاں کے لوگوں اور مملکت کے درمیان یہ معاہدہ ہوتا ہے کہ وہ ان کو تحفظ دے گی۔ ان کی تعلیم کا بندوبست کرے گی۔ ان کی صحت کے لیے اسپتال کھولے گی۔ ان کی نقل و حرکت کے لیے ٹرانسپورٹ کا انتظام کرے گی۔ لوگ اپنی آمدنی میں سے ٹیکس اسی لیے ریاست کو دیتے ہیں کہ وہ ان محصولات سے ان کے لیے معیاری تعلیم، قابلِ اعتبار علاج معالجے اور محفوظ ٹرانسپورٹ کا اہتمام کرے۔

اس وقت ملک میں جو نفسا نفسی ہے،عام آدمی کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے والے گروہ، منافع خوری میں مصروف ہیں۔ میری نسل جس نے پاکستان بنتے دیکھا۔ پھر دو لخت ہونے کا صدمہ بھی برداشت کیا۔ اب 74سال بعد اس عظیم وطن میں جو خوشحالی، بلند معیار زندگی، چہروں پر طمانیت ہونی چاہئے،وہ نظر نہیں آتی تو کتنا کرب محسوس کرتی ہے، ساری مسافت رائیگاں ہونے لگتی ہے۔ مگر جب یہ بیٹیاں اپنے ہم وطنوں کی بچوں کی صحت کے لیے فکر مند، کڑی دھوپ، سخت سردی، برفباری میں گھومتی نظر آتی ہیں۔ صبح بچے بچیاں اسکول وینوں سے جھانکتی دکھائی دیتی ہیںتو دل کہتا ہے کہ نہیں یہ سفر رائیگاں نہیں گیا۔اسکولوں سے لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنّا میری کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ کالجوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی پڑھائی جارہی ہے۔ یونیورسٹیاں نئی نئی کھل رہی ہیں۔ لیبارٹریوں میں نئے آلات آرہے ہیں۔ انسانی بہبود کی ورکشاپس منعقد ہورہی ہیں۔ سٹیزن فائونڈیشن، الخدمت، اخوت، انڈس اسپتال، سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورا لوجی، پیشنٹ ایڈ فائونڈیشن، ریڈز جیسے ادارے پورے ملک میں تعلیم۔ صحت کے شعبے میں رضاکارانہ عطیات کے ذریعے غریبوں کا دکھ بانٹ رہے ہیں۔ کروڑوں روپے کے عطیات دیے جاتے ہیں تاکہ غریب پاکستانیوں کو معیاری تعلیم اور تسلی بخش علاج معالجہ مل سکے۔ جناح اسپتال کے شعبہ سائبر نائف میں کروڑوں روپے کی جدید ترین مشینری کینیڈا میں مقیم مخیّر پاکستانیوں کے عطیات سے کینسر کی تشخیص اور علاج کررہی ہے۔

ذمہ داری یہ ریاست کی ہے اور ان پاکستانیوں کی جو قیادت اور حکمرانی کا شوق رکھتے ہیں۔ آج جو کچھ ہورہا ہے، مہنگائی،بے روزگاری، غربت کی لکیر سے ہر روز سینکڑوں لوگ نیچے جارہے ہیں۔ یہ صرف اس حکومت کا قصور نہیں ہے بلکہ 1977سے بر سر اقتدار رہنے والے ادارے اور جماعتیں سب اس کی ذمہ دار ہیں۔ مہنگائی اچانک نہیں ہوتی نہ روپے کی قدر اچانک گرتی ہے۔ جو خاندان، جماعتیں، ادارے گزشتہ نصف صدی سے اقتدار میں آتے رہے ہیں، وہ مستقبل کے تحفظ میں ناکام رہے ہیں۔

آج میری عرض گزاشت کا مقصد یہ ہے کہ ریاست اور حکومتوں کی بنیادی ذمہ داری تعلیم، صحت اور ٹرانسپورٹ ہوتی ہے اس میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں تو مخیّر پاکستانیوں کی درد مندی سے غریبوں کو بہت مدد مل رہی ہے۔ حکومت سندھ لائق تحسین ہے کہ اس نے امراض قلب کے ادارے کو بہت معیاری بنادیا ہے۔ کراچی میں بھی اس کے کئی مراکز قائم کردیے ہیں۔ سندھ کے دوسرے شہروں میں بھی۔ بیماریٔ دل کا گرانقدر علاج مفت میسر آرہا ہے۔

اب میری التجا ہے کہ سٹیزن فائونڈیشن۔ پیشنٹ ایڈ فائونڈیشن۔ انڈس اسپتال کے مالی سرپرست۔ عطیات دینے والی قابل احترام ہستیاں۔ سمندر پار فکر مند پاکستانی ایک اور شعبے میں بھی دلچسپی لے کر اکثریت کی مشکل آسان کریں۔ وہ ہے بڑے چھوٹے شہروں میں غریب عوام کی نقل و حرکت کا نظام یعنی ٹرانسپورٹ۔آپ مخیرحضرات درد مند دل رکھتے ہیں۔ ہوس زر نہیں ہے آپ کو۔ انسانیت اور بالخصوص اپنے ہم وطنوں کی زندگی آسان کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا عوامی ٹرانسپورٹ سسٹم فراہم کریں جس سے غریبوں کی بڑی تعداد کو ان کی آمدنی اور استطاعت کے مطابق کرائے پر اپنی منزل تک پہنچنے کی سہولت مل جائے۔ اس سے روز افزوں مہنگائی کا بوجھ کم ہوگا۔ پیٹرول کی ہر 15دن بعد بڑھتی قیمت کا بوجھ بٹ کر ہلکا ہوجائے گا۔ ٹرانسپورٹ سسٹم میں بھی وفاق اور صوبے متصادم ہیں اور عوام پریشان ہیں۔ بہتر اور موزوں ٹرانسپورٹ نہ ہونے سے انسانوں کے مزاج متاثر ہوتے ہیں۔ تخلیقی صلاحیتیں ماند پڑتی ہیں۔ کام کرنے کی اہلیت کم ہوجاتی ہے۔ آپ تو کینیڈا، امریکہ، برطانیہ میں زیر زمین ریلوے سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بڑی بسوں سے بھی۔ کسی وقت اکیلے بیٹھ کر کراچی، حیدر آباد، ملتان،سکھر، گلگت، فیصل آباد، سیالکوٹ، میرپور آزاد کشمیر، مردان، قلات، تربت کے بارے میں بھی سوچیں کہ یہاں مائوں، بہنوں، بزرگوں، بچوں اور نوجوانوں کو آنا جانا کتنا دُشوارا ور غیر محفوظ ہورہا ہے۔ تعلیم اور علاج معالجے دونوں کے لیے گھر سے نکلنا پڑتا ہے۔ اسے بھی آسان اور کم قیمت بنادیجئے۔