سی پیک: معاشی فوائد سمیٹنے کا وقت آن پہنچا

November 28, 2021

پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے سی پیک سے متعلق گزشتہ کچھ عرصے سے جن اندیشوں کا اظہار کیا جا رہا تھا، اب وہ ختم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کورونا کی وبا کے باعث فضائی آمدو رفت کے حوالے سے جو مسائل پیدا ہوئے تھے، وہ ختم ہو گئے ہیں اور چین کے جو سرمایہ کار اپنی انڈسٹری کو پاکستان میں ری لوکیٹ کرنا چاہتے ہیں انہوں نے اس حوالے سے میٹنگز کا شیڈول طے کرنا شروع کر دیا ہے اور اگلے دو سے تین ماہ میں اس کے مثبت اثرات نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ اس وقت سی پیک کے تحت بننے والے اکنامک زونز کی ڈویلپمنٹ کا فیز ون مکمل ہونے کے قریب ہے۔ اس سے دونوں دوست ممالک کے سرمایہ کاروں اور انڈسٹری کے لیے معاشی فوائد حاصل کرنے کا وقت قریب تر ہے۔ سی پیک کے تحت بننے والی مختلف انڈسٹریل اسٹیٹس میں سے رشکئی اور علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی میں ڈویلپمنٹ کا کام تیزی سے جاری ہے جبکہ دھابیجی کی انڈسٹریل اسٹیٹ کے قیام پر بھی کام شروع ہو چکا ہے۔

اس حوالے سے مثبت بات یہ ہے کہ حکومت سی پیک کے تحت قائم کی جانے والی انڈسٹریل اسٹیٹس میں سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ کاروں کی سہولت کے لیے ’ون ونڈو ایکٹ‘ لا رہی ہے۔ اس سے سرمایہ کاروں کو یہ سہولت حاصل ہو جائے گی کہ انہیں مختلف سرکاری اداروں سے متعلق اجازت نامے یا دیگر خدمات کے حصول کے لیے الگ الگ جگہ نہیں جانا پڑے گا بلکہ تمام متعلقہ سرکاری ادارے ایک ہی چھت تلے موجود ہوں گے اور زمین کی خریداری سے لے کر انڈسٹریل یونٹس کے قیام اور یوٹیلٹی سروسز کی فراہمی کا کام کم سے کم وقت میں مکمل ہو سکے گا۔ اس حوالے سے فیصل آباد میں قائم پاکستان کی سب سے بڑی انڈسٹریل اسٹیٹ علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی میں ون ونڈو سنٹر اور ہیڈ آفس کی تعمیر جاری ہے جس کی تکمیل سے یہاں سرمایہ کاری اور انڈسٹریلائزیشن کے عمل کو مزید تیز کرنے میں مدد ملے گی۔

علاوہ ازیں حال ہی میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ریکارڈ قانون سازی سے یہ تاثر بھی ختم ہو گیا ہے کہ حکومت یا اس کے اتحادیوں میں کسی قسم کے اختلافات ہیں اور ملک سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی طرف سے معاشی پیکیج کی منظوری اور سعودی عرب کی مالی معاونت سے پاکستانی روپیہ مضبوط ہونا شروع ہو گیا ہے۔ ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے ویژن کو عملی شکل دینے کے لیے حکومتی سطح پر ایکسپورٹس کو بڑھانے اور امپورٹس کو کم سے کم کرنے کے لیے مختصر اور طویل مدتی جامع پالیسی تیار کی جائے۔ اس حوالے سے ملک بھر کے چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کر کے انہیں ان کی ضرورت کے مطابق سپورٹ فراہم کر کے ہر سیکٹر کے لیے الگ الگ اہداف مقرر کیے جائیں۔ اس کام کا آغاز ٹیکسٹائل پروسیسنگ انڈسٹری کو گیس کی فراہمی میں درپیش تعطل ختم کر کے کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے اگر حکومت کو گھریلو صارفین کے لیے مختص گیس کے کوٹے میں کوئی کمی بھی کرنی پڑتی ہے تو اس معاملے پر ہچکچاہت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ملک کے معاشی استحکام کے لیے ایکسپورٹ انڈسٹری کا چلتے رہنا انتہائی ضروری ہے۔

علاوہ ازیں حکومت کو چاہیے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی جانب راغب کرے اس کے لیے روایتی طریقہ کار کی بجائے ٹھوس بنیادوں پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً حکومت اگرہر شعبے کا مرحلہ وار جائزہ لے کر حکمت عملی مرتب کرے کہ پاکستان میں کون کون سی ایسی اشیا کا متبادل تیار کیا جا سکتا ہے جو ہم بیرون ملک سے امپورٹ کرتے ہیں تو اس سے پاکستان میں سرمایہ کاری کے خواہشمند اوورسیز پاکستانیوں کو رہنمائی مل سکتی ہے۔ اسی طرح ہمیں اپنی ایکسپورٹ بیس بھی بڑھانے کی ضرورت ہے جس کے لیے مختلف ممالک میں موجود کمرشل اتاشیوں کو متحرک کیا جا سکتا ہے۔ ان کو یہ ٹاسک دیا جا سکتا ہے کہ وہ نئی منڈیاں تلاش کریں اور جس ملک میں تعینات ہیں وہاں کی مارکیٹ کا جائزہ لے کر یہ رپورٹ تیار کریں کہ وہاں کی مارکیٹ کے لیے پاکستان سے کون سی مصنوعات برآمد کی جا سکتی ہیں۔

یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ملک میں بزنس فرینڈلی ماحول پیدا کرنے کے لیے ٹیکس اصلاحات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں ماضی کی اس روش کو بھی ترک کر دینا چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والے طبقے پر مزید بوجھ ڈالنے کی بجائے ٹیکس نیٹ کو وسعت دی جائے۔ اس کے لیے ایسے سیکٹرز یا شعبوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے جو گزشتہ 74سال سے ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ علاوہ ازیں ٹیکسٹائل یا چند دوسرے سیکٹرز پر تمام تر انحصار کرنے کی پالیسی پر بھی نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت پاکستان کو فرنیچر، میکینکل اور مشینری کی فیلڈ میں مزید کام کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ اسی طرح آئی ٹی اور ای کامرس کے شعبوں پر بھی زیادہ سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے اچھی بات یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی ای کامرس فرم ایمازون نے پاکستانیوں کو اپنے پلیٹ فارم سے ای کامرس کی اجازت دیدی ہے۔ اس پلیٹ فارم سے فائدہ اٹھانے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ جلد سے جلد پیمنٹ گیٹ وے کا نظام تشکیل دے کیونکہ پاکستان میں پے پال یا اس طرح کی دیگر کمپنیوں کی طرز پر بیرون ملک سے آنے والی ادائیگیوں کو وصول کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ اس اقدام سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری افراد کو بہت فائدہ ہوگا کیونکہ پاکستان میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی نسبت لیبر کاسٹ انتہائی کم ہے۔ اگر حکومت اپنی بقیہ دو سالہ مدت میں یہ کام کر لیتی ہے تو اس سے ناصرف پاکستان کی معیشت دوبارہ سے ٹیک آف کی پوزیشن میں آجائے گی بلکہ عام آدمی کی معاشی حالت میں بھی نمایاں بہتری نظر آنا شروع ہو جائے گی۔