ووٹوں کی خرید و فروخت، نیا اسکینڈل

November 30, 2021

یہ بڑی بدقسمتی اور جمہوریت کی روح کے منافی بات ہے کہ پاکستان میں 1970کے سوا جتنے بھی انتخابات ہوئے ان میں دھونس، دھاندلی، جھرلو، ٹھپے اور ووٹوں کی خرید و فروخت کے الزامات ضرور لگے اور ان کے صاف و شفاف ہونے پر سوالات اٹھائے گئے۔ انتخابی بدعنوانیوں اور شکوک و شبہات کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقہ 133کے ضمنی انتخابات میں دو دو ہزار روپے کے عوض ووٹ بیچنے کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کا واقعہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے فوری نوٹس لیتے ہوئے وڈیو کلپس کے فارنزک آڈٹ کا حکم دیا ہے جس سے وڈیو کے اصلی یا جعلی ہونے کا پتہ چل جائے گا اور یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ ووٹوں کی خرید و فروخت کرنے والے کون ہیں۔ انتخابی حلقے کے ریٹرننگ افسر نے کمشنر لاہور، آئی جی پنجاب پولیس، چیئرمین نادرا اور پیمرا کو نوٹس جاری کر دیے ہیں اور ووٹوں کے کاروبار کرنے والوں کے تعین اور شناخت کیلئے مدد طلب کر لی ہے۔ ایک وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ووٹ بیچنے والی ایک عورت قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر ایک پارٹی کا نام لیتے ہوئے حلف اٹھاتی ہے کہ وہ اس کی امیدوار کو ووٹ دے گی۔ اس سے پہلے وہ اقرار کر چکی ہے کہ اس کے خاوند نے بھی دو ہزار میں اپنا ووٹ بیچا ہے۔ اس حلقے کے ضمنی انتخاب میں جو 5دسمبر کو ہوگا، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ تحریک انصاف کا امیدوار کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے باعث مقابلے سے باہر ہو چکا ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے پر ووٹوں کی خرید و فروخت میں ملوث ہونے کے الزامات لگا رہی ہیں۔ مسلم لیگ کے ایک کارکن نے الیکشن کمیشن کو تحریری درخواست دی ہے کہ پیپلز پارٹی ووٹ خرید رہی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ ووٹ خریدنا ہمارا شیوہ نہیں، یہ مسلم لیگ ن کی روایت ہے۔ اس دو طرفہ الزام تراشی نے تحریک انصاف کو دونوں کی ساکھ برباد کرنے کا موقع دے دیا ہے۔ چنانچہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے طنز کیا ہے کہ کیا دو دو ہزار میں ووٹ خریدنا، ووٹ کو عزت دینا ہے؟ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے گھبراہٹ انہی دو پارٹیوں کو ہوتی ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مسلم لیگ ن کی امیدوار کو نااہل قرار دے۔ مسلم لیگ ن کی سیکرٹری اطلاعات مریم اورنگ زیب نے واقعے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ مسلم لیگ ن نہیں بلکہ پیپلز پارٹی یہ کاروبار کر رہی ہے۔ تاہم انہوں نے یہ شبہ بھی ظاہر کیا ہے کہ اس گھنائونے کاروبار میں پی ٹی آئی بھی ملوث ہو سکتی ہے۔ اصل معاملہ ووٹوں کی خرید و فروخت کے ذمہ داروں کا پتہ لگانا ہے جس کیلئے الیکشن کمیشن کی مشینری متحرک ہو چکی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کا المیہ یہ ہے کہ یہاں جمہوریت کے نام پر ایک طرز حکومت تو قائم ہے مگر مغربی ملکوں کی طرح جمہوری اصولوں پر پوری طرح عملدرآمد نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے غیر جمہوری قوتوں کو اقتدار پر قبضے کا موقع ملتا ہے۔ جمہوری قوتیں بھی بالعموم اقتدار کیلئے غیرجمہوری، غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہتھکنڈے اختیار کرتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں جو پارٹی برسر اقتدار آتی ہے روزِ اول سے اس کی مخالفت میں ملک کے سیاسی نظام کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوششیں شروع ہو جاتی ہیں۔ اس صورتحال میں حکومت گڈ گورننس یا اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے نہ اپوزیشن جمہوری اصولوں کی پاسداری کرتی ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے انتخابی اصلاحات کی منظوری بھی یکطرفہ لی گئی ہے۔ اپوزیشن کو شریک نہیں کیا گیا، ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں صاف و شفاف انتخابات کیلئے حکومت اور اپوزیشن مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں اور انتخابی قواعد و ضوابط ایسے بنائیں جن پر دیانتدارانہ عملدرآمد سے انتخابات کی ساکھ بحال ہو سکے۔