’بھگوان‘

December 01, 2021

اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے کئی پہلو ہیں۔ ’’ایک آزاد جج پر تنقید اس کے کام پر اثرانداز نہیں ہوتی، توہین عدالت کے اختیار کا استعمال صرف اسی صورت جائز ہے جب وہ عوامی مفاد میں ہو‘‘اس طرح کے ریمارکس ہی ہوتے ہیںجو تاریخ کومعطر رکھتے ہیں۔مریم نواز وشاہد خاقان عباسی کیخلاف توہین عدالت کی درخواست ناقابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ نے فیصلے میں کہا ’’سابق چیف جسٹس پاکستان پر انفرادی حیثیت میں تنقید کی گئی، ریٹائرمنٹ کے بعد جج بنچ کا حصہ نہیں رہتے، ریٹائرمنٹ کے بعد ججز کا درجہ عام شہری کا ہوتا ہے، عدالت ایک فیصلے میں کہہ چکی کہ ججز قانون سے بالاتر نہیں اور جوابدہ ہیں‘‘واقعہ یہ ہےکہ مملکتِ خداد ادپاکستان میں جو جنتا زیادہ طاقتور و اختیار مند ہے،جو جتنے زیادہ جتھوںکامختارِ کُل ہےبس اُسی کی جنبشِ ابروپر’آبرو‘کاتعین ہوتاہے۔حد تو یہ ہے کہ جہاں اختیارمند عوام کو تقسیم درتقسیم رکھنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے ونعرے مارکیٹ میں لانے میں ثانی نہیںرکھتے وہاںدین مبین کے نام پربھی عوام کو ایک نہیںہونے دیا جاتا، ایک عمل جس کے ہاں سنت ہے وہی دوسرے کےہاں بدعت، ہر دوکو یہ باور کرایا گیا ہے کہ وہی حق پر ہے، یوں پھر’ حق‘ کی خاطر باہم معرکوں کو کس طرح روکاجاسکتاہے۔ لہٰذا زور آوروں کی بیخ کنی کیلئے انقلاب کیسے آئےاور جو جمہوریت ہو وہ آمیزش سے پاک کیسے رہے۔نتیجہ یہ ہےکہ جبرکے ناتمام دورمیں پاکستان ترقی معکوس کا شکارہوکررہ گیاہے۔مذہبی پیشوائیت وشخصی آمریت کی غیرفطری تقدیس کے سبب ہم سے بھی بدتر بلکہ خوفناک صورتحال مغرب کی تھی، لیکن وہ پارسائی کے تمام بتوں کو پاش پاش کرتے ہوئے آج ترقی وبشری حقوقکے عروج پرہیں۔ آپ جانتے ہیںکہ صلیبی جنگوں اور اس کے بعد مسیحیت میں مذہبی پیشواؤں کا جبربام عروج پرتھا۔ صورت حال یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ چرچ کی سیڑھیاں چڑھنے کیلئے غریب وکمزوروں کیلئے قانو ن یہ تھا کہ وہ گھٹنوں کے بل چرچ کی سیڑھیاںچڑھیں گے،زورآوراس سے مستثنیٰ تھے، گناہوں کے معافی نامے دکانوں پر فروخت ہوتے تھے۔ جس بالادست کا جی چاہتا زنا، قتل، چوری، ڈاکہ اور کتنے ہی صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرکے اپنے لیے معافی نامہ خرید لیتا۔ کلیسا کےاس طرح کے ان گنت مظالم کے خلاف پیٹر والڈو، جان ٹولراور جان وائی کلف جیسے اصحاب نے صدائے احتجاج کی روایت کی نموکی جنہیں اگرچہ سخت سزائیں دی گئیں اور کفر کے فتوے صادر کیے گئے مگر اس کے ردعمل میں مارٹن لوتھر کی قیادت میں پروٹسٹنٹ اصلاحِ کلیسیا کی عظیم تحریک برپا ہوئی۔پروٹسٹنٹ کا اعلان تھا،ہم پاپائیت اور خدا اور انسان کے مابین کسی بھی واسطے کے خلاف ہیں، گرجا گھر کو انسان کو بخشنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ اس تحریک کی بدولت یہ اصول طے ہواکہ مذہبی پیشوائوں سمیت کوئی احتساب سے بالا نہیں۔ ایک سخت کوش وسرفروشانہ جدوجہدکے بعد جہاں مغرب نے مذہب کے نام پر استحصال سے نجات پالی، وہاں اُس نے تھامس ہابز اوران کے ہمنوا مفکرین کے اس فلسفے کوتارعنکبوت کی طرح بکھیردیا جس میں کہا گیاتھا’’ کسی بھی فرد کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ مقتدر اعلیٰ سے باز پرس کر سکے، خواہ وہ کتنا ہی برا یا ظالم کیوں نہ ہو‘‘۔اسلام کی تعلیمات ہیں ہی روشن، جن کے مطابق ریاست کا کوئی بھی فرد احتساب سے بالاتر نہیں۔ چونکہ حقیقی اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ تعالیٰ ہےاور اُسکی نظر میں تمام انسان برابر ہیں، اس لئے ریاست کا سربرا ہ بھی عام لوگوں کے برابر ہے،اسلا م میں ریاست کی سربراہی سمیت ہر عہدہ دراصل ایک امانت ہے، لہٰذااختیارات سے تجاوز اس امانت میں خیانت ہے،ایسی صورت میں سربراہ ریاست سمیت ہر ادارے کے اختیار مند کی نہ تو اطاعت کا حکم ہے اور نہ ہی اس کو اس عہدہ پر برقرار رکھنے کا۔ مگر اس مدینے کی ریاست کے اس وقت موجود ’’ایک سے زائد حکمرانوں‘‘ کی حالت سب کے سامنے ہے۔ ’’بھگوان ‘‘کی تعظیم و تقدیس ہندوبرادری کےہاں مسلم ہے،ہم ہر دین دھرم کےاحترام کو اپنے لئے لازم قراردیتے ہیں،یہاں مذہبی نقطہ نگاہ سے نہیں، بھگوان کے لغوی معنی پر اگرہم بات کریں تو ہندی میں اسکے معنی خوش قسمتی اور خوش بختی رکھنے والے کے ہوتے ہیں۔ اورماشااللہ اپنے پیارے پاکستان میں زور آور ہی خوش بخت ہیں! دلچسپ حقیقت یہ بھی ہےکہ ازلی دشمن بھارت میں بھگوان کی تعظیم اختیاری ہے اور یہاں لازمی!