برطانوی شہریت پر خطرے کے سائے

December 03, 2021

تحریر: قاری عبدالرشید ۔۔۔ اولڈھم
برطانوی شہریت منسوخ کروانے والوں کے لیے تو اچھی خبر ہے کہ شہریت اب کسی بھی وقت بغیر اطلاع کیے بھی منسوخ کی جا سکے گی لیکن بری خبر ان کے لیے ہے جو اپنے آبائی ملکوں سے پہلے خود برطانیہ آئے پھر بیوی اور بچے لائے،اس ملک میں مستقل رہائش اختیار کی ،کاروبار شروع کیے اور رفتہ رفتہ یہاں کے مستقل شہری بننے کے لئے برطانوی شہریت اختیار کر لی۔ظاہر ہے یہ سب کچھ قانونی طور پر ہوا،ملک کا قانون ان کو یہ سب سہولتیں دیتا گیا اور وہ بغیر کسی سوچ و بچار کے لیتے گئے اور برطانوی شہری ہونے پر خوشی کے شادیانے بھی بجاتے گئے، گھر اور برادری کے بڑے اس وقت بھی سمجھاتے تھے، اب بھی سمجھا رہے ہیں کہ مزدوری کرو، روزی کمائو، بچو پر اپنا گھر ،اپنا ملک اپنی برادری نہ بھولو اور نہ ہی چھوڑو ،یہ باتیں لاکھ میں شاید دس کو بھی سمجھ آئی ہوں یا کسی نے سمجھنے اور ماننے کی کوشش کی ہو،مقام اطمینان یہ تھا کہ ان لوگوں نے رابطہ اور تعلق اپنے آبائی ملکوں اور اپنے خاندانوں سے قائم رکھا،کوئی مر جاتا تو میت آبائی ملک تدفین کے لئے لے جاتے،بچوں کی شادی کرنے اور چھٹیاں منانے چلے جاتے لیکن یکایک برطانیہ کی حکومت نے قوانین سخت کرنے شروع کر دیئے اور اس کام کا "سہرا ٹوری حکومت" کے سر پرزیادہ ہی سجتا ہے۔اس حکومت نے جو قوانین بھی اس حوالے سے بنائے ان کی زد میں دوہری شہریت رکھنے والے ہی زیادہ آئے اور مزید لانے کی تیاریاں بھی جاری ہیں، ہم اس حوالے سے اور تو کچھ کہہ نہیں سکتے اتنا عرض کرنا چاہیں گے ،کل آپ کو ضرورت تھی تو مختلف ممالک سے لوگوں کو لیتے اور لاتے گئے،انہوں نے آ کر اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیاجس کا انکار ممکن نہیں ، آخر کیا وجہ بنی کہ اب انہی لوگوں کو ڈرانے دھمکانے اور نکالنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں، یہ مجوزہ قانون بن جانے کے بعد کس کو معلوم ہو گا کہ جب وہ واپسی کا ٹکٹ لے کر برطانیہ سے اپنے آبائی ملک جائے گا۔تو وہاں اس کو برطانیہ کی شہریت منسوخ ہو جانے کا پروانہ مل جائے گا ، خدانخواستہ اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ شخص جس کا گھر ،کاروبار ،بیوی، بچے ،پوتے، پوتیاں، نواسے، نواسیاں اور دیگر افراد خانہ برطانیہ میں ہوں گے ،ان پر ایسے حالات میں کیا گزرے گی ، ایسا قانون بنانے والے خود انسانی رشتوں کی قدر و قیمت سے عاری کیوں ہیں، ہماری اس تحریر کی بنیاد مندرجہ ذیل رپورٹس ہیں،آپ بھی پڑھیں اور اس حکومت کو ایسا ظالمانہ اور انسانی حقوق کے منافی قانون بنانے سے روکنے کی کوشش کریں ۔ غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق برطانوی ہوم سیکرٹری پریتی پٹیل نے ’نیشنلٹی اینڈ بارڈر‘ میں ایک نئی شق شامل کردی جس کی وجہ سے حکومت کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی کو بتائے بغیر بھی اس کی برٹش نیشنلٹی ختم کر سکتی ہے۔مذکورہ بل میں یہ نئی شق رواں ماہ شروع میں اَپ ڈیٹ کی گئی جس کے مطابق حکومت کسی ایسے شخص کو نوٹس دینے سے بھی مستثنیٰ ہوگی جس کی شہریت ختم کرنا مقصود ہوگی ، رپورٹ کے مطابق بظاہر اس بل کو لانے کی وجہ قومی اور عوامی مفاد بتائی گئی ہے۔ ’’انسٹی ٹیوٹ آف ریس ریلشینز‘‘ کے وائس چیئرمین فرانسس ویبر نے کہا ہے کہ یہ ترمیم ایسا پیغام دیتی ہے کہ کچھ شہری برطانیہ میں پیدا ہونے اور پرورش پانے کے باوجود اس ملک میں تارکین وطن ہی رہیں گے چنانچہ ان کی شہریت اور تمام بنیادی حقوق غیر یقینی ہیں اور اس کا شکار زیادہ تر نسلی اقلیتوں کے لوگ ہی ہوں گے۔یہ بل انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں سے بھی متصادم ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ لندن سے فرار ہو کر شام میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ میں شامل ہونے والی لڑکی شمیمہ بیگم کے معاملے میں ہوم آفس نے اس کی شہریت ختم کردی تھی تو یہ پہلے ہی حکومت کے پاس ایک متنازع پاور ہے لیکن اس پاور میں مزید اضافہ اور نوٹس دینے سے بھی استثنیٰ اس طاقت کو مزید سخت بنادے گا۔ برطانوی شہریت اب کسی بھی وقت بغیر اطلاع کئے کینسل ہونا ممکن برطانوی شہریت اب کسی بھی وقت بغیر اطلاع کئے بھی کینسل کی جاسکے گی، ہوم سیکرٹری پریتی پٹیل نے ’’نیشنلٹی اینڈ بارڈر‘‘ میں ایک نئی شق شامل کردی ہے جس کی وجہ سے حکومت کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی کو بتائے بغیر بھی اس کی برٹش نیشنلٹی چھین سکتی ہے۔ مذکورہ بل میں یہ نئی شق رواں ماہ شروع میں اپ ڈیٹ کی گئی ہے جس کے مطابق حکومت کسی ایسے شخص کو نوٹس دینے سے بھی مستثنیٰ ہوگی جس کی شہریت ختم کرنا مقصود ہوگا، بظاہر اس بل کو لانے کی وجہ قومی اور عوامی مفاد بتائی گئی ہے، ناقدین کا کہنا ہے کہ لندن سے فرار ہو کر شام میں ’اسلامک سٹیٹ‘ میں شامل ہونے والی لڑکی شمیمہ بیگم کے معاملہ میں ہوم آفس نے اس کی شہریت ختم کردی تھی تو یہ پہلے ہی حکومت کے پاس ایک متنازع پاور ہے لیکن اس پاور میں مزید اضافہ اور نوٹس دینے سے بھی استثنیٰ اس طاقت کو مزید سخت بنا دے گا، ’’انسٹی ٹیوٹ آف ریس ریلشینز‘‘ کے وائس چیئرمین فرانسس ویبر نے کہا ہے کہ یہ ترمیم ایسا پیغام دیتی ہے کہ کچھ شہری برطانیہ میں پیدا ہونے اور پرورش پانے کے باوجود اس ملک میں تارکین وطن ہی رہیں گے چنانچہ ان کی شہریت اور تمام بنیادی حقوق غیر یقینی ہیں اور اس کا شکار زیادہ تر نسلی اقلیتوں کے لوگ ہی ہوں گے۔ یہ بل انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں سے بھی متصادم ہے، ہیومن رائٹس آف پاکستان یوکے چیپٹر کے چیئرمین کونسلر احمد شہزاد او بی ای نے ’’جنگ ‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے شدید تحفظات کیا اور کہا کہ برطانیہ دنیا بھر میں ایک ویلفیئر سٹیٹ کا درجہ رکھتا ہے اگر ٹوری حکومت اس قسم کے یکطرفہ اور آمرانہ قسم کے قوانین لائے گی تو یہ ریاست کی بنیادی اساس کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ حکومت اس قسم کے قوانین پر نظرثانی کرے ورنہ اسے شدید عوامی ردعمل کا سامنا ہوگا، ادھر امریکی حکومت نےبھی ایسے قوانین پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنے ہی شہریوں سے ان کی شہریت چھیننا اخلاقی طور پر ایک گھنائونی پالیسی ہے، یاد رہے کہ برطانوی شہریوں سے ان کی شہریت چھیننے کے ہوم آفس کے اختیارات 2005ء کے لندن دھماکوں کے بعد متعارف کرائے گئے تھے لیکن تھریسامے کے بطور ہوم سیکرٹری ہوتے ہوئے 2010ء سے ان اختیارات میں اضافہ ہوا اور 2014ء میں ان کو مزید وسیع کر دیا گیا، ایسے کیسز میں نوٹس دینے کی ضرورت 2018ء میں پہلے ہی کمزور کردیا گیا تھا، لہٰذا مذکورہ نئی شق نوٹس دینے کی ضرورت کو یکسر ختم کر دے گی، ہوم آفس نے اپنے بیان میں وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ برطانوی شہریت ایک استحقاق ضرور ہے لیکن حق نہیں، سازگار بنیادوں پر شہریت کی منسوخی بجا طور پر ایسے افراد کیلئے مخصوص ہے جو برطانیہ کیلئے خطرہ ہیں یا جن کے طرز عمل سے بہت زیادہ نقصان کا خطرہ ہو۔ قارئین کرام! جب حالات ایسے بن گئے ھیں تو دوہری شہریت کے حامل افراد کو اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے باھمی طور پر سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا کوئی حکمت عملی اور کوئی منصوبہ تیار کرنا ھو گا۔اپنے شہروں کے ایم پیز اور دیگر حکومتی اداروں سے رابطوں کا سلسلہ شروع کرنا ھو گا ۔غفلت کا وقت نہیں ۔۔۔یاد رکھیں جب ۔ لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی والا شعر ۔۔ اب یوں پڑھنا پڑے گا ۔ اگلوں نے خطا کی تو پچھلوں نے سزا پائی ۔