ایچ آئی وی سے متاثرہ مریضوں کو علاج فراہم نہ کرنا قابل سزا جرم ہے، محکمہ صحت سندھ

December 06, 2021

ایڈیشنل ڈائریکٹر۔ کمیونیکیبل ڈیزیز کنٹرول ڈاکٹر ارشاد کاظمی

سندھ کے محکمہ صحت کے حکام نے اسپتالوں اور طبی عملے کو متنبہ کیا ہے کہ ایچ آئی وی سے متاثرہ مریضوں کو اسپتالوں میں علاج کی سہولت فراہم نہ کرنا اور امتیازی سلوک روا رکھنا قابل سزا جرم ہے اور اس جرم میں ملوث افراد کو 50 ہزار روپے سے بیس لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا دی جاسکتی ہے۔

محکمہ صحت سندھ کے کے کمیونیکیبل ڈیزیز کنٹرول کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ڈاکٹر ارشاد کاظمی کی جانب سے سندھ کے تمام بڑے اسپتالوں کو جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ایچ آئی وی سے متاثرہ مریضوں کو اسپتالوں میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اکثر اوقات انہیں اپنی بیماری کی وجہ سے اسپتالوں میں یا تو داخلہ نہیں دیا جاتا یا پھر علاج کی سہولت مہیا نہیں کی جارہی ہے۔

ڈاکٹر ارشاد کاظمی نے اپنے خط میں صوبے کے تمام بڑے اسپتالوں کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹس اور ضلعی ہیلتھ آفیسرز کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ ایچ آئی وی سے متاثرہ مریضوں کو علاج کی سہولتیں نہ دینا یا امتیازی سلوک کرنا 2013 کے صوبائی قانون کے تحت قابل سزا جرم ہے اور سرکاری افسران بشمول طبی عملے کو اس طرح کے سلوک کے نتیجے میں 50 ہزار روپے سے لے کر 20 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا دی جاسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کو پورے عزت و احترام، پروفیشنل ازم اور ہمدردی کے ساتھ تمام طبی سہولتیں فراہم کرنا صوبے کے تمام طبی عملے پر فرض ہے۔

قبل ازیں سندھ کے تمام ایچ آئی وی ٹریٹمنٹ سینٹرز سے آئے ہوئے ایچ آئی وی ٹریٹمنٹ سینٹرز کے انچارجز کا کہنا تھا کہ ایچ آئی وی سے متاثرہ مریضوں کو سرکاری اسپتالوں میں علاج کے حصول میں مشکلات اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اکثر سرکاری اسپتال ایسے مریضوں کو داخل نہیں کرتے اور مجبوراً انہیں پیسے خرچ کر کے پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج کروانا پڑتا ہے۔

سب سے زیادہ مشکلات ایچ آئی وی سے متاثرہ حاملہ خواتین کو پیش آتی ہیں، ان خواتین کو صوبے کے اکثر اسپتالوں کے گائنی وارڈ میں داخلے نہیں دیے جاتے اور انہیں مجبوراً پرائیویٹ اسپتالوں میں زچگی اور دیگر علاج کی سہولتیں حاصل کرنے کے لیے جانا پڑتا ہے۔

دوسری جانب ایچ آئی وی سے متاثرہ خواجہ سراؤں کو بھی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اکثر انہیں ان کی جنسی شناخت کی وجہ سے علاج فراہم کرنے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔