تحریک پاکستان کا سپاہی

January 09, 2022

میں نے ہوش سنبھالا تو اپنے والد نثار احمدنثار کو ہمہ وقت غمِ روزگار میں مصروف پایا، ان کی زندگی محنت اور جہدِ مسلسل سے عبارت تھی، حق گوئی اور بیباکی ان کی پہچان تھی۔ پاکستان سے محبت ان کے دل میں جھلکتی، وہ تحریک پاکستان کے سپاہی تھے اور قائداعظم کے خوابوں کے مطابق تعمیرِ پاکستان کے آرزومند۔ ان کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جس نے تحریک پاکستان کے دوران بے پناہ قربانیاں دیں۔ میرے دادا برکت علی تحریک خلافت میں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کے ہمراہ سرگر م رہے۔ نوابزادہ لیاقت علی خان کے معتمد خاص تھے۔ تایا ظہور احمد نے تحریک آزادی میں کئی مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ان کے تایا زاد بھائی ولی محمد فوج میں تھے جنہیں ہم وطنوں پر گولی چلانے سے انکار پر انگریزوں کے غیظ و غضب کا نشانہ بننا پڑا اور بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔والد صاحب کا گھر دارالعلوم دیو بند کے اہم مرکز مظاہر العلوم سہارنپور کے ساتھ تھا، دادا اور تایا کی وجہ سے سہارنپورمیں مولانا حسین احمد مدنی، سید عطاءاللہ شاہ بخاری، مولانا حسرت موہانی، شیخ محمد عبداللہ، خان لیاقت علی خان، لال بہادر شاستری اور جوش ملیح آبادی جیسے اپنے وقت کے عظم سیاسی رہنما اور شعراء کرام ان کے گھر آتے رہے جن کی صحبت میں رہنے کی وجہ سے انہیں سیاست اور شعروشاعری کا شوق ہوا۔ پاکستان بننے کے بعد 13سال کی عمر میں اس نوزائیدہ وطن کی محبت میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر ایک ایسی ٹرین میں جس میں لاشیں اور بھینسیں تھیں، تھرپار کر کے راستے پاکستان میں راولپنڈی آئے اور بھابڑا بازار کی ایک تنگ و تاریک گلی کے ایک چھوٹے سے مکان میں رہائش اختیار کرلی۔ اپنی گزربسر کے لئے ریڑھی لگائی، موتی بازار چوک میں کھوکھا لگایا، بعدازاں صرافہ بازار میں دکان شروع کی۔ پاکستان صرافہ اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن کے مرکزی سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ 1962میں کونسل مسلم لیگ راولپنڈی کے جنرل سیکرٹری بنے۔ اس وقت میاں محمود احمد منٹو اس کے صدر تھے۔ بی ڈی ممبر منتخب ہوئے۔ ایوبی آمریت کے خلاف تحریک میں بننے والی سی او پی کے راولپنڈی میں سیکرٹری بنے۔ 1964کے صدارتی الیکشن میں محترمہ فاطمہ جناح ؒ کے پہلے تجویز کنندہ بنےاور محترمہ کی انتخابی مہم میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا، اس جرم میں انہیں شاہی قلعے میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس وقت میری والدہ محترمہ قمر جہاں بھی راولپنڈی کی پہلی خاتون لیڈی کونسلر بنیں جنہیں نواب آف کالا باغ کے کہنے پر چند دن بعد فارغ کردیا گیا، 1965 کی پاک بھارت جنگ میں چوہدری غلام عباس ؒ کے ساتھ ’’ وارریلیف کمیٹی‘‘ کے رکن بنے۔ معاہدہ تاشقند کے خلاف چلنے والی تحریک میں بھی پیش پیش رہے۔ کونسل مسلم لیگ کے بعد خان قیوم گروپ میں شمولیت اختیار کی اور مسلم لیگ کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری چنے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس دوران کئی بار عہدوں کی پیشکش کی لیکن آپ نے انکار کردیا۔ ضیاء دور میں مجلس شوریٰ میں شمولیت کی پیشکش بھی مسترد کردی۔ خان عبدالقیوم خان کی وفات کے بعد پیرپگارا گروپ اور خان قیوم گروپ کا ادغام ہوا تو پارٹی سے الگ ہوگئے۔ عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن سے بھی ڈھاکہ میں ملاقات کی، 1987-90میں جب فدا محمد خان مسلم لیگ کے صدر اور نوازشریف سیکرٹری بنے تو آپ ان کے ساتھ سیکرٹری اطلاعات بنے۔ غلام مصطفیٰ جتوئی، غلام مصطفیٰ کھر، ممتاز دولتانہ، سردار شوکت حیات، مخدوم زادہ حسن محمود، محمد خان جونیجو، صاحبزادی محمودہ بیگم، امیر عبداللہ خان روکڑی، چوہدری ظہور الٰہی، یوسف خٹک، نورالامین، احمد سعید کرمانی اور ائیرمارشل اصغر خان جیسی عظیم سیاسی شخصیات سے آپ کے ذاتی مراسم تھے۔ والد صاحب علم کو قوموں کی ترقی کا زینہ سمجھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہمارے ساتھ بیٹھ کر بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ یہ انہی کی سوچ کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے گھر میں 14 ڈاکٹر، 5 وکیل اور 3 انجینئر موجود ہیں، سیاست کی وجہ سے صحافت سے بھی تعلق رہا، کمیٹی چوک پر آپ کی دکان گویا’’ پریس کلب‘‘ کا درجہ رکھتی تھی۔ جہاں گھنٹوں قومی سیاست و عوامی مسائل پر گفتگو ہوتی۔ میر خلیل الرحمٰن آپ کی بہت قدر کرتے تھے، اُردو ادب کی ترویج اور تحریک میں ان کے ساتھ رہے ۔ ہمیشہ سچ بولا، سچ کی تعلیم دی، روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں شائع ہونے والے اپنے اخباری کالموں پر مشتمل ایک کتاب ’’آؤ سچ بولیں‘‘ بھی شائع کی۔ آپ نے ساری زندگی سیاست کو عبادت سمجھ کر جدوجہد کی۔ لیکن عمر کے آخری حصے میں سیاسی فضا میں پیدا ہونے والی بے اصولی کی وجہ سے دل برداشتہ ہوکر گوشہ نشینی اختیار کرلی۔ حق اور سچ کی وجہ سے انہوں نے کافی تکلیفیں اٹھائیں، لیکن حالات کا مردانہ وار مقابلے کیا۔ 16 جنوری کو ان کی چوتھی برسی ہے، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے۔